رسائی کے لنکس

ترکی: جاسوسی کے الزام میں درجنوں پولیس افسر گرفتار


گرفتار پولیس افسران پر وزیرِاعظم اور ان کی کابینہ کے وزرا کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے اور دیگر طریقوں سے جاسوسی کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

ترکی میں حکام نے وزیرِاعظم رجب طیب ایردوان اور ان کے قریبی ساتھیوں کی جاسوسی کرنے کے الزام میں درجنوں پولیس افسران کو حراست میں لے لیا ہے۔

گرفتار ہونے والوں میں استنبول پولیس کے انسدادِ دہشت گردی دستے کے سربراہ سمیت کئی اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں جن پر وزیرِاعظم اور ان کی کابینہ کے وزرا کے ٹیلی فون ٹیپ کرنے اور دیگر طریقوں سے جاسوسی کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

استنبول کے چیف پراسکیوٹر نے کہا ہے کہ پولیس افسران کے خلاف ایک مبینہ دہشت گرد گروہ کے خلاف جاری تحقیقات کے دوران شواہد سامنے آئے تھے۔

ترکی کے ذرائع ابلاغ کے مطابق ان افسران کو پولیس نے ملک کے 22 صوبوں کے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر حراست میں لیا ہے۔

گرفتار ہونے والوں میں وہ پولیس افسران بھی شامل ہیں جو حکومت کے خلاف گزشتہ سال دسمبر میں سامنے آنے والے ایک اسکینڈل کی تحقیقات کر رہے تھے۔

اس اسکینڈل کے نتیجے میں وزیرِاعظم ایردوان کی کابینہ کے چار وزرا کو استعفے دینا پڑے تھے۔

استغاثہ نے حراست میں لیے جانے والے پولیس افسران پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے 'سلام توحید' نامی ایک مبینہ دہشت گرد گروہ کے خلاف تحقیقات کی آڑ میں وزیرِاعظم، ان کی کابینہ کے وزرا اور نیشنل انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ کے ٹیلی فون ٹیپ کیے تھے۔

استنبول کے چیف پراسکیوٹر نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ 'سلام توحید' کے خلاف تحقیقات کرنے والے 76 پولیس افسران کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے ہیں جن میں سے اب تک 52 کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

پراسکیوٹر کے مطابق مبینہ دہشت گرد گروہ کے خلاف تحقیقات کا اصل مقصد اعلیٰ حکومتی رہنماؤں کی جاسوسی کرنا تھا اور اس دوران ملزمان نے دو ہزار سے زائد افراد کی گفتگو ریکارڈ کی۔

پراسکیوٹر نے بتایا کہ 'سلام توحید' نامی نام نہاد تنظیم کے خلاف تین سال سے جاری تحقیقات عدم ثبوت کی بنا پر بند کردی گئی ہیں۔

ترک ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ تازہ گرفتاریاں ایردوان حکومت کی جانب سے ملک میں "متوازی حکومت" کے خلاف جاری کارروائی کا حصہ ہیں۔

ایردوان حکومت امریکہ میں مقیم ترک مذہبی پیشوا فتح اللہ گولن کے پولیس، عدالتوں اور دیگر اداروں میں موجود حامیوں کو "متوازی حکومت" قرار دیتی ہے جو ایردوان کے بقول ان کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔

فتح اللہ گولن کی 'حزمت' تحریک اور ایردوان حکومت کے درمیان محاذ آرائی گزشتہ سال شروع ہوئی تھی جس کے بعد سے 'حزمت' سے تعلق رکھنے والے ہزاروں پولیس افسران، ججوں، وکلائے استغاثہ اور دیگر سرکاری افسران کو تبادلوں اور برطرفیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

حالیہ گرفتاریاں ترکی کے صدارتی انتخاب سے چند روز قبل سامنے آئی ہیں۔ دس اگست کو ہونے والے انتخاب میں پہلی بار صدر کا انتخاب براہِ راست عوام کے ووٹوں سے کیا جائے گا۔

انتخاب میں وزیرِاعظم ایردوان بھی امیدوار ہیں اور غالب امکان یہ ہے کہ وہ بآسانی یہ انتخاب جیت لیں گے۔

XS
SM
MD
LG