رسائی کے لنکس

دھوپ میں خشک کیا ہوا گوشت


Police officers protect themselves with their shields during a protest against the new so-called omnibus law, in Jakarta, Indonesia.
Police officers protect themselves with their shields during a protest against the new so-called omnibus law, in Jakarta, Indonesia.

جن لوگوں کے پاس گوشت کو مہینوں تک محفوظ رکھنے کے لئے فریچ اور فریز کی سہولت نہیں ہوتی، وہ اسے بچانے کے لیے ایک خاص طریقہ استعمال کرتے ہیں

پاکستان میں عید پر خانہ بدوش، جھگیوں والے اور غریب افراد گھر گھر جا کر قربانی کا گوشت کا اکھٹا کرتے ہیں اور یہ سلسلہ عید قرباں کے تینوں دن جاری رہتا ہے۔

بعض افراد گوشت اپنے گھروں میں ذخیرہ نہیں کر پاتے اور وہ اسے امانت کے طور پر اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب کے ہاں رکھوا دیتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت اسے استعمال میں لایا جا سکے۔

جن لوگوں کے پاس گوشت کو مہینوں تک محفوظ رکھنے کے لئے فریچ اور فریز کی سہولت نہیں ہوتی، وہ اسے بچانے کے لیے ایک خاص طریقہ استعمال کرتے ہیں جو نسل در نسل ان کے خاندانوں میں چلا آ رہا ہے۔

راولپنڈی لال کرتی کی رہائشی آمنہ بی بی بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو گوشت اکھٹا کرنے کے بعد اب اسے محفوظ کرنے میں مصروف ہیں۔

35سالہ آمنہ بی بی کا خاندان تقریبا 25 افراد پر مشتمل ہے جس میں بعض گداگری کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ عید کے تینوں روز ہم شہر کے مختلف علاقوں میں جا کر گوشت اکٹھا کرتے ہیں اور ہمارے خاندان کا ہر فرد انفرادی طور پر گھر گھر جا کر گوشت کا تقاضا کرتا ہے یوں تھوڑا تھوڑا کر کے ہمارے پاس منوں گوشت اکٹھا ہو جاتا ہے۔

قربانی کا گوشت دھوپ میں سکھایا جا رہا ہے
قربانی کا گوشت دھوپ میں سکھایا جا رہا ہے

ان کا کہنا تھا کہ اتنی مقدار میں موجود تازہ گوشت کو وہ ایک ساتھ پکا کر کھا نہیں سکتے اور نہ ہی ان کے پاس بجلی یا فریج کی سہولت میسر ہے اس لیے وہ اسے روایتی طریقے سے محفوظ کر لیتے ہیں تاکہ گوشت کو سارا سال استعمال میں لایا جا سکے۔

سب سے پہلے اکٹھا کیے جانے والے گوشت کو ایک جگہ رکھ کر اسے دو حصوں ہڈی والے گوشت اور بغیر ہڈی کے گول بوٹی والے گوشت میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد انہیں الگ الگ ابال کر دھوپ میں سُکھایا جاتا ہے اور ان پر نمک لگا دیا جاتا ہے تاکہ گوشت بالکل خشک ہو جائے۔

ان کے مطابق ہڈی والے گوشت کو وہ سوکھنے کے لئے چارپائیوں پر ڈال دیتے ہیں جبکہ بغیر ہڈی والے گوشت کو دھاگے میں پرو کر تاروں پر لٹکا دیتے ہیں جو چھ سے سات دن میں خشک ہو کر مکمل طور پر محفوظ ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ خشک گوشت کو بڑے تھیلوں میں ڈال لیا جاتا ہے ۔ جس کے بعد وہ سارا سال جب چاہیں گوشت کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔

خانہ بدوشوں کا ایک گھرانا عید کے تین دن میں پچاس کلو تک گوشت جمع کر لیتا ہے ۔اسے ابالنے اور خشک کرنے کے بعد محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ جس کا کہنا تھا کہ وہ تازہ گوشت نہیں خرید سکتے، اس لیے وہ ہفتے میں ایک مرتبہ خشک کیا گیا گوشت پکا کر کھاتے ہیں۔

پاکستان میں عید قرباں پر لاکھوں جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے اور قربانی کے گوشت کا ایک حصہ غریبوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔

جھگیوں میں رہنے والے افراد سارا سال قربانی کے موقع پر خشک کیا ہوا گوشت سنبھال کر رکھتے ہیں۔ تاہم کھلی فضا میں گوشت کو خشک کرنے سے اس میں جراثیم پیدا ہونے کا خطرہ موجود ہوتا ہے، لیکن اس کی پروا کم ہی کی جاتا ہے۔

گوشت اس طرح سے سکھانے کے بعد استعمال کرنا صحت کے لیے نقصان دہ ہے یا نہیں، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر وسیم اے خواجہ نے وائس آف امریکہ سے گفت گو کرتے ہوئے کہا کہ گوشت کو خشک کر کے استعمال کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی ایسا کیا جاتا تھا، لیکن اس کے ضروری ہے کہ حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ گوشت میں 70 پانی ہی ہوتا ہے، اس پانی کو نمک اور لیموں لگا کر مائیکروویو یا کسی گرم برتن میں رکھ کر خشک کیا جائے تو بہتر ہے۔ کھلی فضا میں پڑے رہنے سے اس پر دھول مٹی اور مکھیوں کی وجہ سے خطرناک جراثیم پیدا ہو سکتے ہیں جو معدے، آنتوں اور جگر میں انفیکشن پیدا کرسکتے ہیں۔

ڈاکٹر وسیم کا کہنا تھا کہ عید کے دنوں میں گوشت کا زیادہ استعمال کولیسٹرول بڑھانے سے لے کر بلڈپریشر اور دیگر کئی امراض کے خطرے کو بڑھا دیتا ہے۔

XS
SM
MD
LG