رسائی کے لنکس

’قرض کے مسائل سے اقتصادی نمو سست پڑ سکتی ہے‘


’قرض کے مسائل سے اقتصادی نمو سست پڑ سکتی ہے‘
’قرض کے مسائل سے اقتصادی نمو سست پڑ سکتی ہے‘

امریکہ میں آج کل جو زبردست بحث جاری ہے اور دوسرے ملکوں میں جو احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں، ان سب میں زیرِ بحث بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ قومی قرضوں کو کیسے کم کیا جائے ۔ بعض ملکوںمیں سرکاری قرضوں کی رقم ملک کی کُل سالانہ اقتصادی پیداوار کی مالیت سے بھی زیادہ ہے ۔ قرضوں کے مسائل سے، اقتصادی نمو سست پڑ سکتی ہے، شرح سود میں اضافہ ہو سکتا ہے، اور مالی مسائل زیادہ سنگین ہو سکتے ہیں۔

کسی ملک کے قرضے کتنے زیادہ ہیں، اس کا اندازہ لگانے کے لیے اقتصادی ماہرین قرض کے سائز کا موازنہ اس ملک کی اقتصادی پیداوار سے کرتے ہیں۔ ماہرِ معاشیات ٹل شریبر کہتے ہیں کہ اگر قرض کا بوجھ بہت زیادہ ہو تو اس سے معیشت کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ ’’ماہرینِ معاشیات نے جو ریسرچ کی ہے اس کے مطابق، ہر قسم کے ملکوں میں، وہ مالدار ہوں، غریب ہوں، یا اوسط آمدنی والے ملک ہوں، مجموعی قومی پیداوار اور قرض کے درمیان 90 فیصد کے تناسب کا مطلب یہ ہے کہ اقتصادی ترقی کی رفتار سست ہو جائے گی۔‘‘

شریبر ورجینیا کے کالج آف ولیم اینڈ میری میں پڑھا تے ہیں۔ وہ کہتےہیں کہ اگر کسی ملک میں مضبوط صنعتیں ہوں اور گھریلو بچت کی شرح اونچی ہو، جیسا کہ جاپان میں ہے، تو ایسا ملک قرض کا کہیں زیادہ بڑا بوجھ برداشت کر سکتا ہے ۔ اس کے مقابلے میں، پرتگال کی مثال لیجیئے جس کی بہت سی صنعتیں اور روزگارکے مواقع غیر ملکی مقابلے کی نذر ہو گئے ہیں۔

قرض دینے والے ملک جاپان کو نسبتاً کم شرح سود پر قرض دینے کو تیار ہو جاتے ہیں اور اس طرح وہ جاپان کی معیشت میں اعتماد کا اظہار کرتےہیں، جب کہ پرتگال کو قرض کے لیے اونچی شرح سود ادا کرنی ہوتی ہے ، جسے ’’رسک پریمیم‘‘ کہتےہیں۔

لا سالی یونیورسٹی میں مالیات کے پروفیسر والٹ سکوبرٹ کہتے ہیں کہ سرمایہ کاری کرنے والے اور قرض دینے والے ادارے شرح سود کا تعین کرنے کے لیے ملک کی معیشت کا بغور مطالعہ کرتےہیں۔’’اصل سوال یہ ہے کہ ملک میں قرض واپس کرنے کی کتنی صلاحیت ہے ۔ سرمایہ کاروں کو اصل پریشانی یہ ہوتی ہے کہ آپ کے قرض کا کیا بنے گا اور آپ کی مجموعی قومی پیداوار کی صورت حال کیا ہوگی۔‘‘

اگرچہ ماہرین کو اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ میں اپنا قرض ادا کرنے کی صلاحیت موجود ہے، لیکن بڑی بڑی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے انتباہ کیا ہے کہ اگر صدر براک اوباما اور کانگریس میں ریپبلیکنز کے درمیان سیاسی تعطل ختم نہیں ہوتا ، تو وہ امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ میں کمی کر سکتی ہیں۔

بعض ماہرین کہتےہیں کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگر امریکی کانگریس اور صدر اوباما 2 اگست سے پہلے کسی انتظام پر متفق ہو جاتےہیں، تو بھی امریکہ کی کریڈٹ ریٹنگ گھٹا دی جائے گی۔ دو اگست وہ تاریخ ہے جب امریکہ اپنے قرض کی آخری حد پر پہنچ جائے گا اور اپنی مالی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکے گا۔

کریڈٹ ریٹنگ کم ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ امریکہ کو اپنے $14.3 ٹریلین کے قرض پر، زیادہ اونچی شرح پر سود ادا کرنا ہوگا۔ امریکہ کا $14.3 ٹریلین کا قرض اس کی ایک سال کی اشیاء اور خدمات کی مالیت کے برابر ہے ۔ یہ قرض اتنا زیادہ ہے کہ شرح سود میں معمولی سے اضافے سے بھی اربوں ڈالر کی ادائیگی کرنا ہوگی۔

امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے اسکالر کیون ہیسٹ کہتے ہیں کہ قرض کی ریٹنگ میں تبدیلی سے امریکہ میں اقتصادی انحطاط کی نئی لہر شروع ہو سکتی ہے۔’’آپ کے قرض کی ریٹنگ میں کچھ کمی آتی ہے، تو شرح سود میں کچھ اضافہ ہو جاتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں آپ کو زیادہ سود کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے اور یوں بجٹ میں خسارہ اور زیادہ ہو جاتا ہے ۔ بجٹ کے خسارے میں اضافے سے ریٹنگ ایجنسی کو پریشانی ہوتی ہے اور وہ ایک بار پھر آپ کی ریٹنگ کم کردیتی ہے ۔ اور یوں آپ ایسے چکر میں پھنس جاتے ہیں جس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔‘‘

ہیسٹ کہتےہیں کہ امریکی حکومت ہر مہینے تقریباً 185 ارب ڈالر کی رقم ٹیکسوں اور دوسرے ذرائع سے وصول کرتی ہے لیکن ہر مہینے 300 ارب ڈالر کی ادائیگی کرتی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکتا۔

XS
SM
MD
LG