رسائی کے لنکس

دہری شہریت کیس: تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل واوڈا نااہل قرار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دہری شہریت کیس میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل واوڈا کو نااہل قرار دے دیا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصل واوڈا نااہلی کیس کا 23 دسمبر 2021 کو محفوظ کردہ فیصلہ بدھ کو پڑھ کر سنایا اور حکم میں کہا کہ فیصل واوڈا کا سینیٹ کی نشست کے لیے نوٹی فکیشن واپس لیا جاتا ہے۔

کمیشن نے فیصلے میں کہا کہ فیصل واوڈا نے جھوٹا بیانِ حلفی جمع کرایا تھا جس کی وجہ سے وہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

دہری شہریت کیس میں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار قادر خان مندوخیل نے الزام لگایا تھا کہ فیصل واوڈا نے 2018 کے عام انتخابات میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت جھوٹا حلف نامہ جمع کرایا تھا۔

الیکشن کمیشن میں یہ کیس زیرِ سماعت ہی تھا کہ فیصل واوڈا نےگزشتہ برس مارچ میں قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا اور بعد ازاں سینیٹر منتخب ہو گئے تھے۔

کمیشن نےبدھ کو اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ فیصل واوڈا نے خود کو اپنے کنڈکٹ سے مشکوک بنایا۔ فیصلے کے بقول فیصل واوڈا نے بطور ایم این اے سینیٹ الیکشن میں ووٹ ڈالا جس کے بعد انہوں نے خود کو بطور سینیٹ امیدوار پیش کر دیا۔

کمیشن کے مطابق فیصل واوڈا کا بطور رکن اسمبلی مستعفی ہو کر سینیٹ الیکشن لڑنا مشکوک تھا۔کمیشن نے حکم دیا کہ فیصل واوڈا بطور ایم این اے دو ماہ میں تمام تنخواہیں اور مراعات واپس کریں۔

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت آیا ہے جب پاکستان تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کا معاملہ بھی الیکشن کمیشن میں زیرِ التوا ہے۔

کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا عندیہ

فیصل واوڈا کے وکیل اختر عباس نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنے اختیار سے تجاوز کر کے فیصلہ سنایا ہے۔

الیکشن کمیشن کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہری شہریت کا معاملہ قانونی تھا جو سیاست کی نذر ہو گیا اور اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لئے ان کے پاس سپریم کورٹ کا راستہ موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اپنے حالیہ فیصلوں میں کہہ چکی ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس کسی کے خلاف ڈکلریشن دینے کا اختیار نہیں۔

صحافی مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے تفصیلی فیصلے کو دیکھنے کے بعد ہی واضع ہوگا کہ کن ٹھوس بنیادیوں پر یہ نااہلی قرار دی گئی ہے اور کیا یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیے جانے پر معطل تو نہیں ہوجائے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اس سے قبل الیکشن کمیشن کے کئی فیصلے سپریم کورٹ میں معطل ہو چکے ہیں۔ان کے بقول قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی نااہلی کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے حکم امتناع دیتے ہوئے ڈیڑھ سال سے عمل درآمد روک رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا زیادہ استعمال سیاسی انجینئرنگ کے تحت ہوتا رہا ہے اور وکلا تنظیمیں آرٹیکل 62 ون ایف کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ان کے بقول سپریم کورٹ کو اس قانونی سوال کا جواب مفاد عامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے دینا چاہیے۔

'کمیشن کا فیصلہ دیر سے آیا لیکن خوش آئند ہے'

مطیع اللہ جان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن ایٹ سی اور آئین کے آرٹیکل 218 بی کو استعمال کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت فیصل واوڈا کو نااہل قرار دیا ہے۔

دہری شہریت کیس میں درخواست گزار اور پیپہلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی قادر مندوخیل کہتے ہیں کہ پونے چار سال کے بعد ہی صحیح الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصل واوڈا کی نااہلی کا فیصلہ خوش آئند ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیصل واوڈا نے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے بعد دہری شہریت چھوڑی جس کا جواب وہ کسی عدالتی یا الیکشن کمیشن کے فورم پر دینے سے قاصررہے۔

قادر مندوخیل نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف واضح نہیں ہے کیوں کہ اس آرٹیکل کی بنیاد پر کسی کو تاحیات نااہل قرار دیا جاتا ہے تو کسی کو ایک مدت کے لیےاس لیے آئین کی اس شق کو واضح ہونا چاہیے۔

ان کے بقول قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کی قائمہ کمیٹی انتخابی اصلاحات سے متعلق قانون سازی پر غور کررہی ہے اور بطور رکن قومی اسمبلی وہ اس حوالے سے ایک بل اسمبلی میں پیش کریں گے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کو واضح کیا جائے۔

یاد رہے کہ فیصل واوڈا کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 249 سے منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو شکست دی تھی اور اس نشست پر قادر مندوخیل بھی امیدوار تھے۔

'مناسب یہ ہے کہ فیصل واوڈا کمیشن کا فیصلہ قبول کر لیں'

سیاسی امور کے تجزیہ کار اور صحافی مظہر عباس فیصل واوڈا کی نااہلی کے فیصلے پر کہتے ہیں کہ فیصل واوڈا کو اندازہ تھا کہ وہ قومی اسمبلی کی نشست برقرار نہیں رکھ سکیں گے اس لیے انہوں نے اپنی نشست سے استعفا دیا تھا۔ اس صورتِ حال کے باوجود ان کی جماعت نے انہیں ایوانِ بالا کا رکن منتخب کرا دیا تھا۔

مظہر عباس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد فیصل واوڈا کی سینیٹ کی رکنیت بھی ختم ہو جائے گی۔ ان کے بقول یہ زیادہ مناسب ہے کہ فیصل واوڈا کمیشن کے فیصلے کو قبول کر لیں تاکہ ان کی جماعت کو خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

مظہر عباس کے خیال میں فیصل واوڈا کی نااہلی کے فیصلے سے پاکستان تحریک انصاف کو ایک مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔ بعض سیاسی حلقوں کی طرف سے کمیشن کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے لیکن مظہر عباس کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو قبول کرنے کی روایت ڈالنی چاہیے۔

پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں اس بات کا امکان موجود ہے کہ فیصل واوڈا الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حکمِ امتناع کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کریں تاکہ وہ سینیٹ کی رکنیت کا باقی عرصہ پورا کر لیں۔

XS
SM
MD
LG