رسائی کے لنکس

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپریل کے وسط میں انتخابات کی تجویز


فائل فوٹو
فائل فوٹو

الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر تاریخیں تجویز کردی ہیں۔ کمیشن کے مطابق آئین کے تحت پنجاب میں 13 اپریل اور خیبرپختونخوا میں 15 سے 17 اپریل کے درمیان انتخابات ہونے چاہئیں۔

الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنروں کو خط ارسال کیے ہیں جن میں کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی 14 جنوری کو تحلیل کی گئی تھی۔ اس صورت میں الیکشن کمیشن 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند ہے، آرٹیکل 105 کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا گورنر کا آئینی اختیار ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی تجویز کردہ تاریخوں میں انتخابات کرانا ضروری ہے لیکن اگر الیکشن کو مؤخر کرنا ہے تو اس مقصد کے لیے آئین میں گنجائش موجود ہے۔ مبصرین کے خیال میں امن عامہ کی صورتِ حال، معاشی بد حالی یا پھر مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کا عذر بنا کر انتخابات مؤخر ہوسکتے ہیں۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی نافذ ہونے کی صورت میں قومی اسمبلی کی مدت میں ایک سال کی توسیع ہوسکتی ہے البتہ صوبائی اسمبلیوں کے معاملےمیں ایسا کرنا ممکن نہیں۔ موجودہ صورتِ حال میں دو صوبائی اسمبلیاں موجود ہی نہیں ہیں۔ یہاں کی نگران حکومتوں کو لامحدود وقت کے لیے اختیار نہیں دیا جا سکتا۔

گورنروں کو ارسال کیے گئے خطوط میں الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کے لیے الیکشن کمیشن سے مشاورت ضروری ہے۔ پنجاب میں انتخابات 13 اپریل سے پہلے کرائے جانے لازم ہیں۔

الیکشن کمیشن نے حکومت سے پنجاب و خیبرپختونخوا کے انتخابات کے لیے 20 ارب روپے جاری کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔

پنجاب میں 9 سے 13 اپریل کی تاریخ موزوں

کمیشن کا کہنا ہے کہ پنجاب میں انتخابات کے لیے 9 اپریل سے 13 اپریل کی تاریخ موزوں ہیں۔صوبے کے گورنر ان تاریخوں کے درمیان کی تاریخ الیکشن کے لیے مقرر کرکے اس کا اعلان کریں۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل، آگے کیا ہوگا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:40 0:00

پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کی طرف سےصوبائی اسمبلی کی تحلیل کے بعد حکومت و حزبِ اختلاف میں اتفاق نہ ہونے اور بعد میں پارلیمانی کمیٹیوں میں بھی عدم اتفاق پر الیکشن کمیشن نے محسن رضا نقوی کو پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ تعینات کر دیا تھا۔

محسن رضا نقوی کا نام اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا۔ انہوں نے 22 جنوری کو عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

خیبرپختونخوا میں 15 سے 17 اپریل کے درمیان انتخابات

الیکشن کمیشن نے خیبرپختونخوا میں 15 سے 17 اپریل کے درمیان انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی تجویز دی ہے۔

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے 17 جنوری کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر کو ارسال کی تھی جس پر اگلے روز ہی گورنر نے دستخط کر دیے تھے اور اسمبلی تحلیل ہو گئی تھی۔

بعد ازاں وزیرِ اعلیٰ محمود خان اور اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کی جانب سے سابق بیورو کریٹ اعظم خان کو نگران وزیرِ اعلیٰ مقرر کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

اعظم خان نے 18 جنوری کو وزارتِ اعلیٰ کا حلف اٹھایا تھا۔

انتخابات مؤخر ہونے کے امکانات

الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 232 کے تحت یہ ممکن ہے کہ امن وامان کی صورتِ حال یا معاشی عدم استحکام کی وجہ سے انتخابات مؤخر کیے جاسکتے ہیں البتہ یہ لامحدود وقت تک مؤخر نہیں ہو سکتے۔ ان کے التوا کے بارے میں باقاعدہ وجوہات دینا ہوں گی۔

کنوردلشاد کا کہنا تھا کہ مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن ازخود اختیارات استعمال کرتے ہوئے انتخابات کی تاریخ کو تبدیل کر سکتا ہے البتہ لا محدود مدت تک انہیں مؤخر نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں معمولی رد و بدل ممکن ہے جو الیکشن کمیشن کا اپنا اختیار ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات رمضان میں آ رہے ہیں، تو اس بارے میں بھی الیکشن کمیشن یا نگران صوبائی حکومتیں تاریخ میں کچھ رد و بدل کرسکتی ہیں البتہ آئین میں 90 دن کے اندر انتخابات کرانا ضروری ہیں لہذا اس بارے میں سینیٹ، قومی اسمبلی اور صدر مملکت تک کو اعتماد میں لینا ہوگا۔

کنور دلشاد کے مطابق اس وقت انتخابات کا ماحول بنا ہوا ہے۔ ایک طرف صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہیں اور دوسری جانب 124 ارکان کے ڈی نوٹیفائی ہونے کےبعد 60 روز کے اندر قومی اسمبلی کے انتخابات بھی ہونے ہیں۔ لہذا امکان یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرے گا۔ حکومت اس حوالے سے انہیں تمام مطلوبہ فنڈز فراہم کرنے کی پابند ہے۔

’ نگران حکومتوں کی مدت میں توسیع کی کوئی گنجائش نہیں‘

ماہرقانون اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں قومی اسمبلی کی مدت میں ایک سال کی توسیع کا ذکر ہے البتہ اس کے لیے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنا ہوگی۔ صوبائی اسمبلیوں کی مدت میں اضافے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں اور نگران حکومتوں کی مدت میں توسیع کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

آئین کا حوالے دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 254 کے تحت عدلیہ کی اجازت سے اگر کوئی کام جو آئینی مدت میں مکمل ہونا ہو اور نہ ہوسکے تو اس کی اجازت دی جاسکتی ہے البتہ اس کے لیے بھی ٹھوس وجوہات کا ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پرانی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات کا انعقاد ہوسکتا ہے اور اس کے علاوہ رمضان کی وجہ سے بھی تاریخوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا اور انتخابات کا انعقاد ممکن ہے۔

XS
SM
MD
LG