رسائی کے لنکس

مخلوط تعلیم کے خاتمے کی سفارش باعث تشویش ہے: ڈاکٹر اے ایچ نیئر


ان کا کہنا تھا کہ اگر ابتدائی سالوں میں ہی لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیا جائے گا تو اس سے بہت خراب ذہن پیدا ہوں گے جو مخالف جنس کے لیے صحت مندانہ رویے نہیں رکھتے ہوں گے۔

رواں ہفتے اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے ملک میں مخلوط نظام تعلیم یعنی لڑکوں اور لڑکیوں کی اکٹھی تعلیم ختم کرنے کی سفارش پر ماہرین تعلیم نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس سے ناصرف عورتوں کے لیے تعلیمی مواقع متاثر ہوں گے بلکہ معاشرے میں بہت سے دیگر مسائل بھی جنم لیں گے۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے منگل کو اپنے ایک اجلاس کے بعد بیان میں کہا تھا کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ نظام تعلیم بنانے کی ضرورت ہے جیسا کہ کونسل کی سابق سفارشات میں بھی کہا جا چکا ہے۔

معروف ماہر تعلیم اور سرگرم کارکن اے ایچ نیئر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دور جدید کے لحاظ ہے یہ بہت غلط رائے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ابتدائی سالوں میں ہی لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیا جائے گا تو اس سے بہت خراب ذہن پیدا ہوں گے جو مخالف جنس کے لیے صحت مندانہ رویے نہیں رکھتے ہوں گے۔

’’تعلیم تو اپنی جگہ ہے، لیکن اٹھنا بیٹھنا، ساتھ کھیلنا کودنا جو بچوں کا ہوتا ہے اس میں جو عورتوں مردوں کی برابری کا عنصر ہے وہ یکسر ختم ہو جائے گا۔ بلکہ بڑے بیمار اذہان پیدا ہوں گے جو مردوں اور عورتوں کو انسان کے طور پر دیکھنے کی بجائے، کسی جنسی شے کے طور پر دیکھ رہے ہوں گے۔‘‘

ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے کہا کہ مخلوط تعلیم کو ختم کرنے کی سفارش اس لیے بھی قابل عمل نہیں کیوںکہ اس کے لیے لڑکیوں کے لیے الگ بڑی اور معیاری یونیورسٹیاں قائم کرنا ہوں گی، اور اگر ایسا نہ کیا جا سکا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ عورتوں کے لیے معیاری تعلیم کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیں گے۔

’’اس ادارے نے اپنے ذمے جو کام لیا ہے وہ زمانے کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ۔۔۔۔۔ وہ مذہب کی تعبیرات لفظی معنوں میں کرتے ہیں۔ وہ مذہب کی تعبیرات روشن خیالی کے ساتھ نہیں کرتے نہ زمانے کے ساتھ قدم ملا کر کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا اگر ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہم نے اپنے مستقبل کی باگ ڈور رکھی تو ہمارا معاشرہ کبھی آگے نہیں بڑھ پائے گا۔ وہ ہمیشہ ایک جامد معاشرہ، ایک خراب معاشرہ ہو کر رہ جائے گا۔‘‘

اسلامی نظریاتی کونسل اس سے قبل بھی بہت سی قدامت پسندانہ اور متنازع سفارشات دے چکی ہے۔ گزشتہ برس کونسل کو اپنی اس سفارش پر شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑا جس میں اس نے کہا تھا کہ اگر نو برس کی لڑکی بلوغت کو پہنچ جائے تو اس کی شادی کی جا سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG