رسائی کے لنکس

مصر میں انتقال اقتدار کے مسائل


مصر میں انتقال اقتدار کے مسائل
مصر میں انتقال اقتدار کے مسائل

امریکی حکومت کی کوشش ہے کہ قاہرہ میں منظم انداز سے اقتدار میں تبدیلی کا عمل جاری رہے ۔ لیکن بعض مصری اور امریکی ماہرین کو تشویش ہے کہ حکومت کا ارادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ قیادت میں بعض نمائشی تبدیلیوں کی آڑ میں اقتدار پر اپنی گرفت قائم رکھے۔

مصر میں احتجاج کرنے والے لوگوں نے اس وقت تک اپنے مظاہرے ختم کرنے سے انکار کر دیا ہے جب تک صدر حسنی مبارک اپنا عہدہ نہیں چھوڑتے، اگرچہ مصر کے نائب صدر عمر سلیمان کی قیادت میں حکومت مخالف گروپوں اور احتجاجیوں کے نمائندوں کے ساتھ ملک میں قیادت کی تبدیلی کے بارے میں مذاکرات جاری ہیں۔ اوباما انتظامیہ قیادت میں جلد از جلد تبدیلی کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ تسلیم کرتی ہے کہ مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ ایک بڑی مشکل مصری آئین کی وہ شق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر صدر اپنا عہدہ چھوڑ دیں، تو عبوری حکومت کے سربراہ، پارلیمینٹ کے اسپیکر ہوں گے ۔

اس سے بڑے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں کیوں کہ بیشتر مصریوں کا خیال ہے کہ آخری پارلیمانی انتخابات میں سر ا سر دھاندلی ہوئی تھی۔ امریکی محکمہ خارجہ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری جامی روبن وضاحت کرتے ہیں’’اس طرح ایک غلط آدمی صدر بن جائے گا۔ پارلیمینٹ کے اسپیکر جو مبارک کے حاشیہ بردار رہ چکے ہیں، ایسی شخصیت نہیں ہیں جنہیں اس مشکل وقت میں آپ ملک کی باگ ڈور دینا چاہیں گے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی بات یہ ہے کہ میٹنگوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اور اصلاحات اور تبدیلی کی جو باتیں ہو رہی ہیں، وہ جلد از جلد ٹھوس شکل اختیار کریں۔‘‘

روبن کی تجویز ہے کہ اس مسئلے کا ایک حل یہ ہے کہ آئین کو معطل کر دیا جائے، اور ایک سمجھوتے کی راہ نکالی جائے کہ اس عبوری دور میں قیادت کی ذمہ داری کسے سونپی جائے گی ۔

امر حمزوی اس کمیٹی کے رکن ہیں جسے دانشمند افراد کی کمیٹی کا نام دیا گیا ہے اور جو مصری احتجاجیوں اور نائب صدر کے درمیان مصالحت کے لیئے تشکیل دی گئی ہے ۔ نائب صدر سلیمان سے ملنے اور حکومت مخالف لیڈروں کے ساتھ ان کی میٹنگوں کے مشاہدے کے بعد حمزوی کہتے ہیں کہ اب قومی سطح پر بڑی حد تک اتفاق رائے موجود ہے کہ مصر میں حکومت کی تبدیلی کے لیئے کیا کیا جانا چاہیئے ۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ اور دوسرے مصری محسوس کرتے ہیں کہ ہمارے سامنے چیلنج یہ ہے کہ حکومت نے مضبوطی سے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، اور اس کی کوشش یہ ہے کہ تبدیلی کے عمل کو سست کر دیا جائے تا کہ اقتدار ان کےہاتھ سے جانے نہ پائے ۔

حمزوی کہتے ہیں’’عبوری مدت میں نائب صدر کو کام کرنا چاہیئے ۔ پارلیمینٹ کو توڑنا ضروری ہے ۔ ہم نے کچھ آئینی ترامیم تجویز کی ہیں جن پر سب کا اتفاق ہے ۔ ہم نے قوانین میں بعض تبدیلیاں تجویز کی ہیں۔ ہم نے سیاست میں شرکت، سیاسی حقوق، شہری آزادیوں، الیکٹورل سسٹم اور ہنگامی قوانین کے خاتمے کے لیئے ضابطے تجویز کیئے ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مصر کو جمہوریت کی راہ پر ڈالنے کے لیئے کیا کرنا ضروری ہے۔ ضروری بات یہ ہے کہ حکمراں طبقہ جمہوریت لانے کے لیئے سیاسی عزم کا مظاہرہ کرے اور اپنی گرفت مضبوط بنانا ختم کرے جس کی کوشش اب بھی جاری ہے۔‘‘

جمہوریت کے بعض ماہرین جیسے کارنیج انڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کی میشیل ڈیون کا خیال ہے کہ اب سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اگر مصری فوج کو صدر مبارک پر اپنا عہدہ چھوڑنے کے لیئے دباؤ ڈالنے میں تامل ہے، تو کیا صحیح معنوں میں اقتدار میں تبدیلی آئے گی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس عمل کو جاری رکھنے کے لیئے ضروری ہے کہ فوری طور پر بعض مخصوص اقدامات کیئے جائیں۔’’میں سمجھتی ہوں کہ صدر مبارک کو کم از کم اتنا تو ضرور کرنا چاہیئے کہ وہ اپنا حکمرانی کا رول ختم کر دیں اور ایک رسمی سا رول قبول کر لیں۔ میرے خیال میں حزبِ اختلاف کو نائب صدر سلیمان کے ساتھ یا مصر کی حکومت کی طرف سے عبوری دور میں جسے بھی مقرر کیا جائے، کافی تفصیلی سمجھوتہ کرنا پڑے گا کہ یہ سب کچھ کس طرح ہو گا۔ شاید اس پورے عمل میں چھ سے نو مہینے لگ جائیں گے۔‘‘

ڈیون کہتی ہیں کہ انہیں اندیشہ ہے کہ مصر کی حکومت ، چند نمائشی تبدیلیوں کے ساتھ، اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اس کا کھیل یہ ہے کہ ان لوگوں کو جو احتجاج نہیں کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حالات معمول پر آجائیں، ان لوگوں سے لڑوا دیا جائے جو اس وقت تک مظاہرے جاری رکھنا چاہتے ہیں جب تک صدر مبارک اپنا عہدہ چھوڑ نہیں دیتے۔

XS
SM
MD
LG