رسائی کے لنکس

مصر میں اسلامی جماعتوں کا اعتدال پسندی پر زور


مصر میں اسلامی جماعتوں کا اعتدال پسندی پر زور
مصر میں اسلامی جماعتوں کا اعتدال پسندی پر زور

مصر میں اسلامی پارٹیوں کی مقبولیت کی زیادہ صحیح تصویر اگلے چند ہفتوں میں سامنے آئے گی جب ملک میں انقلاب کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات کے نتائج ملیں گے۔ اب تک خاص طور سے دارالحکومت کے باہر کے علاقوں میں ان کی حمایت میں خاصا جوش و خروش دیکھنے میں آیا ہے۔

قاہرہ کے جنوب میں فیوم کی بستی قدامت پسند مسلمانوں کا گڑھ ہے جو بڑا پُرسکون قصبہ لگتا ہے لیکن اس کا ماضی بڑا خون آشام رہا ہے۔

مصر کے ایک انتہا پسند اسلامی گروپ کے قاتلوں کا تعلق اسے قصبے سے تھا۔ لیکن ان دنوں ‎ الجماعة الإسلامية‎ نے خود کو ایک اعتدال پسند گروپ کے طور پر پیش کیا ہے۔

اس جماعت کے ترجمان محمد مرزوک کنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے پرچم تلے ایک نشست کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ مصر کو ایک جدید ریاست بننا چاہیئے جس کا پس منظر اسلامی ہو۔

مرزوک کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی ملک کے اور عوام کے مسائل اعلیٰ ترین سطح پر حل کرے گی۔ وہ اس گروپ کے امید وار ہیں جس پر 1981ء میں صدر انور سادات کے قتل کی سازش اور 1997ء میں لیوزور میں سیاحوں کے قتل عام کا الزام ہے۔

لیکن اب اس گروپ نے زیادہ عملی اور اعتدال پسند موقف اختیار کیا ہے۔ مرزوک کہتے ہیں ’’وہ ایسے قوانین بنانے کی بات کر رہے ہیں جن سے سماجی انصاف قائم کیا جا سکے تا کہ ایسے کاروبار باقی نہ رہیں جن میں ایک فرد تین لاکھ مصری پاؤنڈ کماتا ہو جب کہ دوسرے فرد کو صرف 300 پاؤنڈ ملتے ہوں۔‘‘

اگرچہ الجماعة الإسلامية‎ نے 2003ء میں تشدد کو خیرباد کہہ دیا تھا لیکن قتل و غارت گری سے آمدنی کی زیادہ منصفانہ تقسیم تک کا سفر نا قابلِ یقین سا لگتا ہے۔ لیکن اس پسماندہ قصبے کے بہت سے لوگ اس گروپ کی بات پر اعتبار کرنے کو تیار ہیں۔

ووٹر حسین السید کہتے ہیں کہ ’’آپ کو اسلام سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیئے۔ آپ کو اسلام سے کبھی ڈر محسوس نہیں کرنا چاہیئے کیوں کہ اگر اسلام پسند قرآن پر چلیں گے تو کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا۔‘‘

لیکن کچھ لوگوں کو خاص طور سے ملک کی عیسائی اقلیت کو مسائل نظر آتے ہیں۔ مرزوک ان کے اندیشے کو دور کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ عیسائیوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا اور ان کی پارٹی انھیں مسلمانوں کے برابر حقوق دے گی۔ قانون کا اطلاق سب پر ایک جیسا ہو گا۔

تاہم انتخابی مہم کے دوران کچھ لوگ الجماعة الإسلامية‎ کے امیدوار کے الفاظ کی صداقت پر شک و شبہے کا اظہار کرتے ہیں۔

مرزوک اپنے حریف وفد پارٹی کے سیاستدان اعصام حرازہ کا خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن حرازہ کا الزام ہے کہ مرزوک نے کیمرے کے سامنے اپنا جو رُخ پیش کیا ہے وہ حقیقت نہیں ہے کیوں کہ انھوں نے وفد پارٹی کے انتخابی پوسٹر پھاڑ دیے تھے۔ مرزوک اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔

حرازہ مذہب کی مقبولیت کی لہر کا احساس کرتے ہوئے فیوم کے ووٹروں کے سامنے اپنی پارٹی کی لبرل بنیاد پر زور نہیں دیتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ وفد پارٹی آزاد خیالی اور سیکولرزم کے نظریے سے دور رہے گی۔

مصر میں ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے جس میں وفد پارٹی جدیدیت سے دور ہو رہی ہے اور الجماعة الإسلامية‎ جدید تصورات کو اپنا رہی ہے۔ یوں ایک ایسی درمیانی راہ کے لیے جنگ جاری ہے جو سب کو قابلِ قبول ہو۔

XS
SM
MD
LG