رسائی کے لنکس

مصر اور امریکہ کے تعلقات کا مستقبل


Warga Tripoli, Libya menuliskan kejatuhan Gadhafi sebagai "Revolusi terbaik di seluruh dunia."
Warga Tripoli, Libya menuliskan kejatuhan Gadhafi sebagai "Revolusi terbaik di seluruh dunia."

مصر کو امریکہ کی سالانہ ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی امداد کی تجدید شامل ہے۔ بعض امریکی قانون سازوں نے کہا ہے کہ مصری حکومت نے جمہوریت کے حامی گروپوں کے خلاف جو چھاپے مارے ہیں، ان کی وجہ سے اس امداد میں کمی کر دینی چاہیئے۔ تازہ ترین واقعات کی وجہ سے حالات اور زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔ امریکن یونیورسٹی کے سعید صادق کا خیال اس سے مختلف ہے۔

مصر کی طرف سے کئی امریکی شہریوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت دینے سے انکار پر دونوں ملکوں کے درمیان جو روایتی طور پر اتحادی رہے ہیں کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔

بعض لوگ سوچ رہے ہیں کہ کیا اس اقدام سے انقلاب کے بعد کے دور میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں تبدیلی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ لیکن مصر میں بعض دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ فوجی قیادت کی طرف سے اس اقدام کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مصر کے لوگوں میں ایک خاص قسم کا تاثر پیدا کیا جائے۔

کئی امریکیوں نے قاہرہ میں امریکی سفارت خانے میں پناہ لی جب انہیں مصر چھوڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس طرح امریکی حمایت سے چلنے والی غیر سرکاری جمہوری تنظیموں کے حوالے سے کشیدگی میں اضافہ ہوا اور مصر کو امریکہ سے ملنے والی ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی امداد کے مستقبل کے بارے میں سوالات پیدا ہوئے۔

یہ ایک غیر معمولی سفارتی اقدام ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کو کچھ خطرہ محسوس ہوا تھا جبکہ مصری میڈیا میں یہ قیاس آرائی کی گئی کہ جن لوگوں نے امریکی سفارت خانے میں پناہ لی ہے وہ اپنے خلاف ممکنہ قانونی کارروائی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مصر حکام نے دسمبر میں غیر ملکی امداد سے چلنے والے جمہوریت کے حامی کئی گروپوں پر چھاپے مارے اور ان پر الزام لگایا کہ وہ ملک کے داخلی معاملات میں غیر قانونی مداخلت کر رہے ہیں۔

امریکہ نے شکایت کی اور مصر نے معاملات درست کرنے کا وعدہ کیا۔ لیکن گذشتہ ہفتے ایسے ہی ایک گروپ ، انٹرنیشنل ریپبلیکن انسٹی ٹیوٹ کے مقامی ڈائریکٹر سیم لاہوڈ سمیت کئی امریکیوں کو ائیر پورٹ سے واپس بھیج دیا گیا۔ سیم امریکی کابینہ کے ایک رکن کے بیٹے ہیں۔

مصر کی مسلح افواج کی سپریم کونسل کو جمہوریت کے حامی کارکنوں کے خلاف مسلسل کارروائیوں کی بنا پر سخت تنقید کی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہزاروں مصریوں کو اس پر تنقید کرنے کے الزام میں ملٹری ٹریبیونلز کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور انتہائی سخت حالات میں جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔

لیکن قاہرہ میں امریکن یونیورسٹی کے پولٹیکل شوشیالوجسٹ سعید صادق کہتے ہیں کہ سفارت خانے میں جو لوگ ہیں ان کا معاملہ اتنا خراب نہیں ہے۔

’’اس معاملے کو غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہمارے سامنے ایسی کوئی مثال نہیں ہے کہ جب کوئی امریکی یا غیر ملکی سرکاری تحویل میں ہو، تو اس کے ساتھ کوئی برا سلوک کیا گیا ہو۔ چند مہینے پہلے کچھ امریکی طالب علم گرفتار کیے گئے تھے اور ان پر مظاہرے میں شریک ہونے کا الزام تھا۔ بس ہوا یہ کہ وہ ملک سے چلے گئے۔ کسی کو اذیت نہیں دی گئی، کسی کے خلاف کوئی تشدد نہیں ہوا۔ کچھ بھی نہیں ہوا۔‘‘

پیر کے روز وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ کے علم میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے کوئی خطرہ ہو۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ مصر کی طرف سے ملکی ناقدین کے خلاف جو کارروائی جاری ہے اور سرکاری تحویل کے دوران اذیتیں دینے کے جو الزام لگائے جا رہے ہیں، ان کی وجہ سے امریکہ مشکل میں پڑ گیا ہے۔

اوباما انتظامیہ نے گذشتہ سال عوامی تحریک کی حمایت میں تاخیر کی تھی لیکن اس کے بعد اس نے مصر میں نئی طاقتوں کے ساتھ رابطے قائم کیے ہیں۔ ان میں سپریم کونسل اور اسلامی گروپس شامل ہیں۔ اس طرح امریکہ نے ملک میں نئی سیاسی حقیقتوں کے ساتھ رابطے میں رہنے کی کوشش کی ہے۔

اس میں مصر کو امریکہ کی سالانہ ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی امداد کی تجدید شامل ہے۔ بعض امریکی قانون سازوں نے کہا ہے کہ مصری حکومت نے جمہوریت کے حامی گروپوں کے خلاف جو چھاپے مارے ہیں، ان کی وجہ سے اس امداد میں کمی کر دینی چاہیئے۔ تازہ ترین واقعات کی وجہ سے حالات اور زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔ امریکن یونیورسٹی کے سعید صادق کا خیال اس سے مختلف ہے۔

’’یاد رکھیئے، امریکہ کو مصری فوج کی ضرورت ہے جس پر اس نے کئی عشروں میں بہت پیسے لگائے ہیں۔ مصر میں سیاسی قوتوں کے ساتھ بھی، جیسے اخوان المسلمون کے ساتھ بھی ان کے کھلے تعلقات ہیں۔ امریکی جانتے ہیں کہ ان کے تعلقات میں یہ دو طاقتیں بہت اہم ہیں۔ میرے خیال میں تین امریکیوں کی گرفتاری یا حراست سے یا کچھ وقت کے لیے انہیں ملک چھوڑنے سے روکنے سے جب تک استغاثہ اس معاملے کو سلجھا نہیں لیتا، کوئی فرق نہیں پڑے گا‘‘۔

صادق کہتے ہیں کہ مصری حکام بھی چاہتے ہیں کہ تعلقات برقرار رہیں کیو ں کہ انہیں انقلاب کے بعد، ملک کی تعمیرِ نو کے فوری مسائل درپیش ہیں۔ اس ہفتے مصری عہدے داروں کا ایک وفد امریکہ میں ہے اور اس کی کوشش ہے کہ معاملات ٹھیک ہو جائیں۔

پروفیسر صادق کہتے ہیں کہ امریکی حمایت سے چلنے والے جمہوریت کے حامی گروپوں کے خلاف کارروائی کا مقصد مقامی لوگوں کو متاثر کرنا ہے۔ ’’اس کا مقصد مصر کے لوگوں کو یہ دکھانا ہے کہ مصر اب بھی مضبوط ہے اور وہ امریکہ کو نا کہہ سکتا ہے خاص طور سے سپریم کونسل کے طرزِ عمل کے خلاف بعض امریکیوں کی تنقید کے بعد اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے عبوری دور میں حالات کی مذمت اور فوج کی بد انتظامی پر تنقید کے بعد‘‘۔

پروفیسر صادق کہتے ہیں کہ حکومت کے ان اقدامات کو محض ڈرامہ سمجھا جانا چاہیئے۔

XS
SM
MD
LG