رسائی کے لنکس

’یو اے ای‘ کے وزیر خارجہ کی ٹرمپ انتظامیہ کے حکم نامے کی حمایت


متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے کہا کہ تارکین وطن سے متعلق کوئی بھی اقدام اٹھانا ایک "ریاست کا فیصلہ" ہے۔ خلیجی عرب خطے سے ٹرمپ کے اقدام کے حق میں یہ پہلا بیان سامنے آیا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مسلمان اکثریت والے سات ملکوں کے شہریوں پر امریکہ میں داخلہ پر عارضی پابندی عائد کرنے کے فیصلے کی تائید کی ہے۔

متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہان کے بیان سے امریکی انتظامیہ کے اس موقف کو تقویت ملے گی کہ اس اقدام کا مقصد مسلمان پر پابندی عائد کرنا نہیں ہے۔

متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ نے کہا کہ تارکین وطن سے متعلق کوئی بھی اقدام اٹھانا ایک "ریاست کا فیصلہ" ہے۔ خلیجی عرب خطے سے ٹرمپ کے اقدام کے حق میں یہ پہلا بیان سامنے آیا ہے۔

انہوں نے امریکی انتظامیہ کی اس یقین دہانی پر اعتماد کا اظہار کیا کہ یہ اقدام مذہب کی بنیاد پر نہیں اٹھایا گیا ہے۔

شیخ عبداللہ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ مسلمان اکثریت والے زیادہ تر ممالک اس حکم کے تحت نہیں آتے ہیں جس کے تحت عراق، شام ، ایران، سوڈان، لیبیا، صومالیہ اور یمن کے شہریوں پر امریکہ میں داخلہ پر 90 روز کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

انہوں نے اپنے روسی ہم منصب سے امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں بات چیت کے بعد کہا کہ، "یہ ایک عارضی پابندی ہے اور تین ماہ کے بعد اس پر نظر ثانی کی جائے گی۔ تو یہ اہم ہے ہم یہ بات ذہن میں رکھیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "اس فہرست میں بعض ممالک ایسے ہیں جنہیں انتظامی مسائل کا سامنا ہے۔"

متحدہ عرب امارات کا شمار امریکہ کے قریبی اتحادیوں میں ہوتا ہے۔ یہ امریکہ کے قیادت والے اس اتحاد کا بھی رکن ہے جو داعش کے خلاف بر سر پیکار ہے اور یہاں امریکی دستے اور لڑاکا جنگی طیارے بھی موجود ہیں جو داعش کے خلاف مہم میں شامل ہیں۔

ٹرمپ نے رواں ہفتے ابوظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زید اور سعودی عرب کے بادشاہ سلمان سے فون پر بات کی تھی اور اپنے عرب اتحادیوں کے ساتھ ان کا یہ پہلا رابطہ تھا۔

XS
SM
MD
LG