ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں ہفتے کو ہوئے مہلک حملے کے بعد تین اعلیٰ سکیورٹی اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔
ان کی معطلی صدر رجب طیب اردوان کی طرف سے اس بیان کے بعد سامنے آئی جس میں انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ اس حملے کو روکنے کے حوالے سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔
ترکی کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ انقرا کے صوبائی پولیس سربراہ اور شہر کے انٹلیجنس اور سکیورٹی اداروں کے سربراہان کو منگل کو معطل کیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ اس کارروائی کا مقصد بم حملے کی "بہتر طریقے سے تفتیش" عمل میں لانا ہے۔
صدر اردوان نے کہا کہ"بلاشبہ غلطی سرزد ہوئی، کسی جگہ پر کوئی کمی رہ گئی۔ وہ کس حد تک تھی؟ ۔ یہ تفتیش کے بعد ہی سامنے آئے گا"۔
اردوان اور ان کی حکمران جماعت کو دو بم حملوں کے بعد بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے جن میں تقریباً 100 افراد ہلاک جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے۔
صدر نے کہا کہ وہ ان حملوں کی تفتیش شروع کرنے کے لیے اپنے انتظامی اختیارات کو استعمال میں لا رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی دعویٰ کیا کہ شام سے آنے والی ایسی انٹلیجنس رپورٹوں میں یہ اشارے مل رہے تھے کہ ان بم دھماکوں سے پہلے ان حملوں کی تیاری کی جارہی تھی۔
صدر کے اس بیان کو زیادہ تر ان کی طرف سے حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلمپنٹ پارٹی 'اے کے پی' پر حکومت کی طرف سے دباؤ بڑھانے کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے جس کا ابھی تک یہ دعویٰ رہا ہے کہ ( ان حملون کو روکنے کے بارے میں ) کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے ۔
وزیر اعظم احمد داؤد اغلو نے کہا کہ ہفتے کو ہونے والے حملوں کی ذمہ داری مشتبہ طور پر داعش پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم انہوں ںے مزید کہا کہ ایسے بھی شواہد موجود ہیں کہ کہ کوئی دوسرا گروپ بھی ان میں ملوث ہو سکتا ہے لیکن اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔
ترکی کے وزراء اور حکومت نواز سرکاری میڈیا کے طرف سے اس خیال کا اظہار کیا جارہا ہے کہ کرد ستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے باغی داعش کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہوں گے۔
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ان دعوؤں کو نقادوں کی طرف سے یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا ہے کہ احتجاجی مظاہرے میں کئی کرد نواز سرگرم کارکن بھی شامل تھے اور پی کے کے اس وقت شام اور عراق میں داعش کے خلاف برسرپیکار ہے۔