ایرانی صدرمحموداحمدی نژاد اور دیگر اعلیٰ عہدے داروں نےپیر کے روز یورپی یونین کی طرف سے تعزیرات عائد کرنے کے خلاف سخت زبان کا استعمال کیا، لیکن عندیہ دیا ہے کہ ایران ستمبر میں اپنے متنازع جوہری پروگرام پر بات چیت کوبحال کرنے پر تیار ہے۔
آج ایرانی رہنماؤں نے سخت بیانی اور ترش لہجہ اختیار کیا، لیکن تہران کی طرف سے آخری پیغام یہ تھا کہ رمضان کے متبرک مہینے کے بعد،ستمبر میں، ایران اپنے جوہری پرگرام پر مذاکرات بحال کرنے کا خواہشمند ہے۔
حکومتِ ایران کے ٹیلی ویژن نے صدر محمود احمدی نژاد، پارلیمان کے اسپکیر علی لاری جانی اور وزیر برائے تیل مسعود میر کاظمی کو دکھایا۔ اُنھوں نے پیر کے روز برسلز میں یورپی یونین کی طرف سے تعزیرات کی منظوری دیے جانے پر سخت نکتہ چینی کی۔ اُنھوں نے باور کرایا کہ اِن اقدامات کا تہران پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
میر کاظمی نے کہا کہ ایران پیٹرول کی متعدد مصنوعات یورپ سے نہیں خریدتا، اِس لیے یورپی یونین کی نئی قدغنیں بے معنی ہیں۔ لاری جانی نے بھی تعزیرات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کیاکہ، ‘ ایران کے دشمن ایک اور سازش تیار کر رہے ہیں لیکن ایرانی لوگوں کا عزم بہت بلند ہے۔’
مسٹراحمدی نژاد نےتاثر دیا کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ کے دو ممالک پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تاہم، اُنھوں نے اُن ممالک کے نام نہیں بتائے۔
اُنھوں نےالزام لگایا کہ جوہری معاملے کے بہانے امریکہ ایران کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنا چاہتا ہے، لیکن تہران مختلف سائنسی میدانوں میں ترقی کر رہا ہے۔ تاہم، اُنھوں نےکہا کہ اُن کا ملک ’ستمبر میں مغرب کے ساتھ جوہری مذاکرات بحال کرنا چاہتا ہے۔’
اُنھوں نے مزید کہا کہ ترکی اوربرازیل گذشتہ سال کے جوہری ایندھن کے تبادلے کے سمجھوتے پر عمل درآمد کے کوشاں تھے، جِنھیں بات چیت میں شامل کیا جائے۔
لندن میں قائم ‘سینٹر فور عرب اینڈ ایرانین اسٹڈیز’ سے وابستہ تجزیہ کار، علی نورزادے کا کہنا ہے کہ مغرب کے خلاف زبانی حملوں کی آڑ میں ایرانی رہنما ، امریکہ، اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین کی طرف سے لاگو کی گئی تعزیرات پر بے انتہا پریشان ہیں اوربغیر شرائط کے مذاکرات کرنے پر تیار ہیں۔
نورزادے کے بقول ‘آپ دیکھ سکھتے ہیں کہ وہ کتنے پریشان ہیں۔ آپ اُن کی پریشانی کو محسوس کر سکتے ہیں۔ حالانکہ، وہ کہہ رہے ہیں کچھ نہیں ہوتا، اور کوئی چیز اُنھیں اپنی پالیسی بدلنے پر مجبود نہیں کر سکتی۔ اگر آپ بین السطور پڑھ سکتے ہوں تو آپ بھانپ لیں گے کہ وہ فی الواقع پریشان ہیں۔ حالانکہ وہ سخت روی اور بین الاقوامی برادری کو چیلنج کرنے کی بات کرتے ہیں۔ بالاآخر، وہ مغرب کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ایران بات چیت کے لیے تیار ہے، اور اِس بار بغیر شرائط کے ۔’
ایرانی نژاد تجزیہ کار الیکس وتنکا، واشنگٹن کے ‘مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ ’ سے وابستہ ہیں۔ وہ نورزادے کے خیالات کی تائید کرتے ہیں کہ ایران پیغام دیتا آیا ہے کہ وہ بغیر شرائط کے مذاکرات پر تیار ہے، اور وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ دراصل یورپی یونین کی پابندیوں نے ایران کو حقیقت پسند بننے پر مجبور کردیا ہے۔
مقبول ترین
1