رسائی کے لنکس

اقتصادی انحطاط کی وجہ سے خود کشی کی شرح میں اضافہ


اقتصادی انحطاط کی وجہ سے خود کشی کی شرح میں اضافہ
اقتصادی انحطاط کی وجہ سے خود کشی کی شرح میں اضافہ

یورپ کے ملکوں کو اقتصادی انحطاط کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور محقق کہتے ہیں کہ اس وجہ سے ، خاص طور سے ان ملکوں میں جہاں حالات زیادہ خراب ہیں، خود کشی کی شرح بڑھ گئی ہے۔ گذشتہ جمعے کو ایک تحقیق کے نتائج شائع ہوئے جن کے مطابق یونان میں 2007ء اور 2009ء کے درمیان، خود کشی کی شرح میں پندرہ فیصد اضافہ ہوا۔

گذشتہ ہفتے جو تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی ہے اس کے مطابق پورے یورپ میں خود کشی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ طبی جریدے، The Lancet میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق، سب سے زیادہ اضافہ یونان میں ہوا ہے۔

Pavlos Tsimas یونان میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں اس رجحان کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بنائی ہے۔ انھوں نے خود کشی کرنے والوں کے اہلِ خانہ کو انٹرویو کیا اور بعض لوگوں کی داستانیں وائس آف امریکہ کو بتائیں۔ انھوں نے کہا کہ’’ہم نے Crete میں Herakleion کے ایک چھوٹے سے بزنس مین کے کیس کی تفتیش کی جس نے اپنی کار لی، اسے پٹرول کے ڈبوں سے بھرا، اپنے آپ کو گولی ماری اور پھر گاڑی کو آگ لگا دی۔ اس کے جسم سمیت ہر چیز جل کر راکھ ہو گئی۔‘‘

یونان کو بجٹ میں بھاری خسارے کی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ ایک برس سے زیادہ عرصہ ہوا کہ حکومت نے اپنی مالی مشکلات پر قابو پانے کے لیے اخراجات کم کر دیے ہیں اور ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یونان کی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے۔ لیکن بہت سے یونانیوں پر اس کے تباہ کن اثرات پڑ رہے ہیں۔ آج، یونان کے ہر چھہ باشندوں میں سے ایک بے روزگار ہے۔

Tsima کہتے ہیں کہ وہ بزنس مین جس سے اپنی کار کو آگ لگائی، اتنے ڈرامائی انداز سے اپنی زندگی ختم کرنے والا اکیلا فرد نہیں تھا۔ ان کے مطابق ’’ہمیں پتہ چلا کہ لوگوں نے خود کو بڑے ڈرامائی اور بعض اوقات بڑے پر تشدد انداز سے ہلاک کیا۔ شاید اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود کشی کے بارے میں کچھ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا کو معلوم ہو جائے کہ انھیں اپنی بدقسمتی کا کتنا شدید احساس ہے، وہ کتنے دکھی اور کتنے نا امید محسوس کرتے رہے ہیں۔‘‘

Tsima کہتے ہیں کہ یونان میں، بیشتر خود کشی کرنے والے مرد ہیں۔ ان کی تعداد میں جزیرہ Crete میں خاص طور سے اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجوہات خاصی پیچیدہ ہے۔ غربت اور بے روزگاری کی علاوہ اس میں عزت ِ نفس اور ذاتی وقار کے احساس کا بھی دخل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’شاید Crete میں خود کشی کی شرح زیادہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہاں سماجی اور گھریلو زندگی زیادہ روایتی ہے۔ گھرانے میں باپ کو طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ اور جب اقتصادی مسائل پیدا ہوتےہیں، جب ملازمت چلی جاتی ہے، کاروبار ختم ہو جاتا ہے، تو گھرانے میں احترام اور عزت نفس ختم ہونے سے، لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کی زندگی بے معنی ہو کر رہ گئی ہے اور وہ خود کشی کا انتہائی اقدام کرنے پر تل جاتے ہیں۔‘‘

خود کشی کی شرح میں اضافہ صرف یونان تک محدود نہیں ہے۔

اس تحقیقی مطالعے میں یورپ کے دس ملکوں میں 2007ء سے 2009ء کے اعداد و شمار پر تحقیق کی گئی اور پتہ چلا کہ یورپ میں خود کشی کی شرح کم ہو رہی تھی لیکن جب سے بینکنگ کی صنعت میں بحران آیا ہے، خود کشی کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

سروے میں شامل دس میں سے نو ملکوں میں خود کشی کی شرح میں پانچ فیصد اضافہ ہوا۔ ایک اور ملک جہاں اقتصادی حالات بہت زیادہ خراب ہیں، آئر لینڈ ہے۔ وہاں خود کشی کی شرح میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرِ عمرانیات، David Stuckler اس رپورٹ کے لکھنے والوں میں شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بڑی حد تک، وہ ملک جو اقتصادی انحطاط سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، ان میں خود کشی کی شرح میں بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ آئر لینڈ، اسپین، بالٹک کے علاقے کے ملک، اور یونان جیسے ملکوں میں یہ شرح 16 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔‘‘

Stuckler کہتے ہیں کہ خود کشی کی کوششوں اور ڈپریشن کی بیماری کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے اس کیفیت کو ذہنی صحت کے بحران کا نام دیا ہے۔

لیکن وہ کہتے ہیں کہ اچھی خبر بھی آئی ہے۔ جن ملکوں میں حکومتوں نے لوگوں کو کام پر واپس جانے میں مدد دی ہے، جیسے سوئیڈن اور فن لینڈ، وہاں خود کشی کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ انھوں نے کہ ’’ہمیں پتہ یہ چلا کہ جن لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں، انہیں صرف پیسہ دینے سے فرق نہیں پڑا۔ اس کے بجائے، لوگوں کو صبح بستر سے اٹھنے کی وجہ دینے سے، انھیں یہ اُمید فراہم کرنے سے کہ کسی اچھے با معنی کام کی تلاش سے فرق پڑے گا، لوگوں کو بہت فائدہ ہوا۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ پورے یورپ میں حکومتوں کو یہ سبق سیکھنا چاہیئے۔

XS
SM
MD
LG