رسائی کے لنکس

پاکستانی نژاد امریکی وجیہہ سواتی کے قتل پر سابق شوہر کو سزائے موت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

راولپنڈی کی عدالت نے پاکستانی نژاد امریکی خاتون وجیہہ سواتی قتل کیس کا فیصلہ سناتےہوئے مرکزی ملزم اور مقتولہ کے سابق شوہر کو سزائے موت سنا دی ہے۔

ایڈیشنل سیشن جج محمد افضل مجوکہ نے مجرم کو اغوا کے جرم میں 10 سال قید اورایک لاکھ روپے جرمانہ جب کہ مقتولہ کے سابق سسر حریت اللہ اور ملازم سلطان کو لاش کی بےحرمتی پر سات سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی۔

اس کے علاوہ عدالت نے گھریلو ملازم ملزم رشید اور زاہدہ کو عدم ثبوت پر بری کر دیا۔

اس موقع پر عدالت میں امریکہ کے سفارت خانے کے چار سینئر اہلکاراور امریکی تفتیشی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کی ٹیم بھی موجود تھی۔

ایف بی کے آئی افسر نے عدالت کےفیصلے کو بہترین قرار دیا۔

ملزم رضوان حبیب نے اپنی سابقہ اہلیہ وجیہہ سواتی کو اربوں روپے مالیت کی جائیداد کا جھگڑا طے کرنے کے بہانے پاکستان بلا کر اکتوبر 2021 میں قتل کیا تھا۔

وجیہہ سواتی کی وکیل شبنم نواز اعوان ایڈووکیٹ نے کہا کہ آج وجیہہ کے معصوم بچوں کو انصاف مل گیا ہےالبتہ اس فیصلے کے آنے کے بعد ان بچوں کے زخم ایک بار پھر تازے ہو گئے کہ ان کی ماں کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا۔

پاکستانی نژاد امریکی خاتون کون تھیں؟

وجیہہ فاروق سواتی کا تعلق ایبٹ آباد سے تھا البتہ کئی برس قبل ان کی امریکہ میں مقیم ڈاکٹر کے ساتھ شادی ہوئی تھی۔

اطلاعات کے مطابق 2014 میں ان کے پہلے شوہر ڈاکٹر مہدی علی بشیر الدین قمر کو پنجاب کے علاقہ ربوہ کے قریب قتل کیا گیا تھا۔

وجیہہ فاروق نے دوسری شادی رضوان حبیب نامی شخص سے کی تھی اور دونوں کے درمیان دو سال قبل طلاق ہوگئی تھی۔

راولپنڈی کے تھانہ مورگاہ میں درج ہونے والی ایف آئی آر کے مطابق وجیہہ فاروق سواتی گزشتہ برس 16 اکتوبر کو اپنے سابق شوہر سے جائیداد کے معاملات طے کرنے کے لیے پاکستان آئی تھیں۔ ان کے ساتھ ان کا 15 سالہ بھانجا بھی برطانیہ سے آیا تھا۔

واضح رہے کہ وجیہہ فاروق کی ایک بہن برطانیہ میں مقیم ہیں جہاں وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر آئی تھیں۔

ایف آئی آر کے مطابق پاکستان پہنچنے کے بعد ان کے سابق شوہر رضوان حبیب انہیں ڈی ایچ اے میں واقع اسی گھر میں لے گئے جس کی ملکیت کو لے کر دونوں کے درمیان تنازع چل رہا تھا۔

اس گھر میں ملازمین کی طرف سے دیے جانے والے مشروبات پینے کے بعد وجیہہ فاروق اور ان کا بھانجا آیان سو گئے۔

آیان کے مطابق جب وہ اٹھا تو اس کی خالہ اور ان کا سامان غائب تھا جب کہ گھر میں رضوان حبیب بھی موجود نہیں تھے۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق وہاں موجود ملازمین نے آیان کو کمرے میں بند کرنے کی کوشش کی تھی البتہ اس دوران اس نے اپنی ایک اور عزیزہ کو بلایا اور ان کے ساتھ چلا گیا۔ بعد ازاں آیان برطانوی سفارت خانے سے ہنگامی دستاویزات لے کر واپس برطانیہ چلا گیا اور اس کے بعد سے اب تک وجیہہ فاروق کے بارے میں کسی کو علم نہیں تھا۔

اس بارے میں وجیہہ فاروق سواتی کے بیٹے عبد اللہ مہدی کی وکیل شبنم نواز ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں حبسِ بے جا کی درخواست دائر کی تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی طرف سے اس کیس میں تاخیر کی جا رہی ہے اور ایف آئی آر کا اندراج تک نہیں کیا جا رہا تھا۔ اس پر اغوا کے 15 دن بعد دو نومبر کو تھانہ مورگاہ میں ایف آئی آر درج کی گئی۔

اس کیس میں نامزد ملزم رضوان حبیب بنگش کو فوری طور پر گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق ملزم تفتیش میں تعاون کر رہا تھا اور پولیس کی طرف سے بلائے جانے پر تھانے آ رہا تھا۔ تاہم پولیس نے بعد ازاں ان کو باقاعدہ گرفتار کر لیا تھا۔

رضوان حبیب بنگش نے وجیہہ فاروق کے غائب ہونے کے حوالے سے 22 اکتوبر 2021 کو تھانہ مورگاہ میں ایک درخواست بھی دائر کی تھی۔ البتہ دو نومبر کو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جس میں ان کو وجیہہ فاروق سواتی کے اغوا کا ملزم قرار دیا گیا تھا۔

رضوان حبیب نے اس ایف آئی آر کی منسوخی کے لیے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں ایک درخواست بھی دائر کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے حکام کو کہا کہ پولیس کو شاید اس کیس کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہو رہا کہ تین بچوں کی ماں اور امریکی شہری اغوا ہو چکی ہے اور اس بارے میں اب تک کوئی اطلاع نہیں ہے۔

بعد ازاں معاملہ میڈیا پر آنے کے بعد پولیس نے رضوان حبیب سے ان کے اکاؤنٹس میں آنے والی رقم کے حوالے سے تفتیش کی، تو معلوم ہوا کہ وجیہہ کی طرف سے ان کے اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے کی رقوم آئیں۔

ملزم نے پولیس کے سامنے قتل کا اعتراف کیا اور وجیہہ کی لاش ملزم رضوان کی بہن کے ہنگو میں گھر سے برآمد کرلی گئی تھی جسے پوسٹ مارٹم کے بعد امریکہ بھجوا دیا گیا تھا۔

’آج انصاف مل گیا‘

اس کیس میں وجیہہ سواتی کی دوست اور وکیل شبنم نواز اعوان ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آج انصاف مل گیا لیکن آج ایک بار پھر وجیہہ کے بچوں کے زخم تازہ ہو گئے ہیں۔

شبنم نواز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمیں عدالت سے انصاف ملا ہے لیکن اس کیس میں سب سے بڑی مشکل پاکستان میں تفتیش کا ناقص نظام ہے۔

ان کے مطابق ایک پولیس اہلکار جس کے پاس جائے وقوعہ پر جانے کا اکثر کرایہ بھی نہیں ہوتا وہ کیا تفتیش کرے گا؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ پولیس کا نظام بہتر بناتے ہوئے تمام کیسز کے لیے اسپیشلائزڈ افسروں کو تعینات کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ وجیہہ کی جائیداد جس پر اس کے بچوں کا حق ہے، وہ ملزم نے اپنی ماں کے نام ٹرانسفر کر دی تھی جس کے لیے ہم نے ہائی کورٹ میں کیس دائر کر رکھا ہے۔ امید ہے کہ عدالت سے ہمیں جلد انصاف ملے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کیس میں دورانِ تفتیش یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ ملزم رضوان حبیب نے ہی وجیہہ کے پہلے شوہر ڈاکٹر مہدی علی بشیر کو قتل کیا تھا۔ تاہم پولیس کی حراست میں دیے گئے ان کے بیان کو تسلیم نہیں کیا جا رہا۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں امریکہ کے سفارت خانے اور ایف بی آئی حکام نے معاونت کی، جس کی وجہ سے اس کیس میں جلد انصاف ملا ہے۔

XS
SM
MD
LG