رسائی کے لنکس

ایم کیو ایم کے سابق رکنِ قومی اسمبلی ایک ماہ سے ’لاپتا‘; نثار پنہور پر الزام کیا ہے؟


نثار پنہور قومی و صوبائی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ فائل فوٹو۔
نثار پنہور قومی و صوبائی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ فائل فوٹو۔

یہ 29 اور 30 اگست کی درمیانی رات کی بات ہے جب کراچی کے علاقے سعدی ٹاؤن میں سابق رکنِ قومی اسمبلی نثار احمد پنہور کے گھر پر چھاپہ مارا گیا ۔نثار پنہور کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ گھر پر چھاپہ مارنے والوں میں سندھ رینجرز کے اہلکار اور بعض سول کپڑوں میں ملبوس لوگ شامل تھے جو سیڑھی لگا کر گھر کے اندر داخل ہوئے اور 56 سالہ نثار پنہور کو اپنے ہمراہ لے گئے۔

نثار پنہور کے بیٹے حسن پنہور کے مطابق ایک ماہ سے بھی زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کے والد کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ انہیں اب تک کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کے خاندان کو اس بارے میں کچھ آگاہ کیا گیا ہے کہ انہیں کس جرم میں قید رکھا گیا ہے۔

نثار پنہور سال 2003 میں پہلی بار کراچی کے علاقے عزیز آباد سے متحدہ قومی موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں اردو بولنے والوں کی نمائندہ جماعت تصور ہونے والی ایم کیو ایم نے انہیں سندھی ہونے کے باوجود اپنی جماعت کے گڑھ سے انتخابات میں کھڑا کیا تھا۔ وہ 53 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ 2008 کے عام انتخابات میں وہ ملیر کے علاقے سے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور کچھ عرصہ صوبائی وزیر بھی رہے۔

الطاف حسین کے پُرجوش ساتھی

نثار احمد پنہور کو متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین پُرجوش حامی سمجھا جاتا ہے۔ وہ کھل کر الطاف حسین کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ رواں سال 14 اگست کو پاکستان کے یوم آزادی کے دن انہیں اور ان کے دیگر ساتھیوں کو کراچی پریس کلب پر الطاف حسین کے حق میں احتجاج کرنے پرگرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف مقامی تھانے میں مقدمہ بھی درج کیا گیا تاہم بعد میں انہیں رہا کردیا گیا تھا۔

بعدازاں نثار پنہور نے 27 اگست کو سندھ ہائی کورٹ میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے لیے ایک درخواست دائر کی تھی۔

الطاف حسین تین دہائیوں سے برطانیہ میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں جہاں سے وہ ماضی میں اپنی جماعت کے سرگرمیوں کو کنٹرول کرتے رہےتھے اور ٹیلفون کے ذریعے سیاسی جلسوں سے خطاب کرتے تھے۔

الطاف حسین نے 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب کے باہر ایم کیو ایم کے احتجاجی کیمپ سے خطاب کرتے ہوئے ریاست مخالف نعرے لگوائے تھے اور اپنے کارکنان کو قریبی واقع نیوز چینل اے آر وائی پر دھاوا بولنے کی ہدایات بھی جاری کی تھیں۔

اس اقدام کے بعد ایم کیو ایم نے الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کردیا تھا جب کہ حکومت نے الطاف حسین کی تقریروں، میڈیا پر ان کے بیانات اور تصویر دکھانے کرنے پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔

نثار پنہور نے سندھ ہائی کورٹ میں دائر کردہ اپنی درخواست میں یہ بھی استدعا کی تھی کہ الطاف حسین پر عائد کردہ تمام پابندیاں ختم کی جائیں۔ انہوں نے درخوست میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ آئینِ پاکستان کے تحت ہر شہری کو اظہار، جماعت یا تنظیم بنانے کی آزادی حاصل ہے۔

ان کے مطابق الطاف حسین ہمیشہ پاکستان اور اس کے آئین سے وفادار رہے ہیں۔ انہوں نے درخواست میں یہ دعویٰ تھا کہ الطاف حسین نے کبھی قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیا لیکن ان کی تقاریر کی غلط تشریح کو بنیاد بنا کر ان پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

نثار احمد پنہور کے اہلِ خانہ کا مؤقف

نثار احمد پنہور کے بیٹے حسن پنہور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے والد نے جس دن الطاف حسین پر پابندیاں ختم کرنے کی درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی تھی اسی رات سندھ رینجرز اور سیکیورٹی ایجنسیوں نے ان کے گھر پر چھاپا مارا تھا۔

ان کے مطابق یہ اہل کار سیڑھی لگا کر گھر کے اندر داخل ہوئے اور والد کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔حسن پنہور کے بقول، ان کے پاس ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں رینجنرز اہل کار اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہل کار ان کے والد کو ساتھ لے کر جاتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اس واقعے کی تفصیلات لے کر جب متعلقہ سچل تھانے گئے تو پولیس حکام نےواقعے کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کردیا گیا۔ جس کے بعد ان کے اہل خانہ نے سندھ ہائی کورٹ میں پنہور کی مبینہ جبری گمشدگی کے خلاف آئینی درخواست دائر کی تھی۔

اگرچہ اس درخواست پر 13 ستمبر کو عدالت نے سندھ رینجرز اور سیکریٹری داخلہ سے جواب طلب کیا تھا لیکن اب تک وفاقی یا صوبائی حکومت کی جانب سے اس گمشدگی پر کوئی سرکاری موقف سامنے نہیں آیا ہے۔

حسن پنہور نے الزام عائد کیا کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے ساتھ جان بوجھ کر یہ کھیل کھیلا جارہا ہے لیکن ان کے والد یہی کہا کرتے تھے کہ الطاف حسین نے انہیں عزت دی ہےاور وہ بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ ان کے لیے چاہے مہاجر لڑیں یا نہ لڑیں، وہ ضرور لڑیں گے۔

احتجاج اور مظاہرے

ادھر ایم کیو ایم کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مصطفیٰ عزیزآبادی کا کہنا ہے کہ نثار پنہور کی گرفتاری پاکستان میں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی کی ایک اور مثال ہے اور یہ ناقابل برداشت عمل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نثار پنہور کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے الطاف حسین پر لگائی جانے والی غیر آئینی پابندی کو چیلنج کیا تھا جو کہ سراسر غلط ہے۔ نثار پنہور نے کوئی قانون نہیں توڑا لیکن اس کے باوجود انہیں 37 روز سے لاپتا رکھا گیا ہے۔ اگر ان پرکوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت اور کارکنوں کو پاکستان میں سخت پابندیوں کا سامنا ہے جو ملک میں آئین، جمہوریت اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں۔

ایم کیو ایم نے 2 اکتوبر کو لندن میں نثار پنہور کی جبری گمشدگی کے خلاف مظاہرہ کیا اور برطانوی وزیرِ اعظم کے دفتر میں یادداشت بھی پیش کی تھی۔ اس سے قبل لندن مین پاکستانی ہائی کمیشن اور کینیڈا اور امریکہ میں بھی نثار پنہور کی بازیابی کے مظاہرے کیے جاچکے ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں اور کئی صحافیوں نے بھی نثار پنہور کی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور وزیر اعظم سمیت دیگر حکام سے گمشدگی پر نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

کمیشن برائے انسانی حقوق نے بھی نثار پنہور کی عدالت میں عدم پیشی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں بلا تاخیر عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں اس کا جواب دینے کا پورا قانونی حق دیا جائے۔

پاکستان میں جبری گمشدگی کے واقعات ؛ حکومت کیا کہتی ہے؟

کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کی سال 2021 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ایک سال میں جبری گمشدگی کے سب سے زیادہ واقعات بلوچستان میں رپورٹ ہوئے جن کی تعداد 1108ہے۔ خیبرپختونخواہ میں جبری گمشدگی کے سب سے زیادہ واقعات زیرِ التوا ہیں جن کی تعداد 1417 بتائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سندھ میں اس نوعیت کے 170 کیسز زیر التواء ہیں۔

اگرچہ پاکستان کی فوج سمیت ریاستی ادارے ملک میں جبری گمشدگی کے واقعات میں اپنے کردار کی سختی سے نفی کرتے آئے ہیں لیکن وزارت دفاع عدالتوں میں ایسے حراستی مراکز کا اقرار کرتی ہے جہاں سے بعض لاپتا افراد کا سراغ بھی ملا ہے۔

گزشتہ ماہ اپنے ایک ٹوئٹ میں وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ریاست کے لیے یہ باعث شرمندگی ہے کہ لوگوں کو قانون کے دائرے میں لانے کے بجائے انہیں لاپتا کردیا جائے اور پھر ان کی لاشیں ملیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومتوں کی اس بارے میں رٹ کس حد تک ہے اس کا سب کو علم ہے۔ ان کے بقول، ہم تصادم کے بجائے افہام و تفہیم کے ساتھ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

مئی 2022 میں وفاقی حکومت نے کابینہ کی ذیلی کمیٹی تشکیل دی جس کا مقصد جبری گمشدگی کے وقعات کے تدارک کے لیے پالیسی سفارشات پیش کرنا تھا۔ اس کمیٹی کی سربراہی وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کررہے ہیں جبکہ کمیٹی میں وفاقی وزیر داخلہ سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے وزراء بھی شامل ہیں۔

کمیٹی کے کئی اجلاسوں میں انسانی حقوق کے کارکنان، صحافیوں اور وکلاء نے اپنی سفارشات پیش کی ہیں تاہم کمیٹی کی جانب سے اب تک حتمی سفارشات کابینہ کو ارسال نہیں کی گئی ہیں۔

اس حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کا بل قومی اسمبلی سے تو منظور ہوگیا تھا لیکن سینیٹ سے اس کی منظوری اب تک التواء کا شکار ہے۔

XS
SM
MD
LG