رسائی کے لنکس

حکومت سازی کے لیے طالبان شوریٰ کا اجلاس، معیشت اور سیکیورٹی بڑے چیلنج


طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کابل میں موجود ہیں۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کابل میں موجود ہیں۔

افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل کے لیے طالبان ںے کئی اہم فیصلے کیے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں افغانستان کی نئی حکومت کے لیے معاشی بحران پر قابو پانے سمیت سیکیورٹی اور حکومت میں تمام طبقات کی شمولیت بڑا چیلنج ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کو اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اماراتِ اسلامیہ افغانستان کی سربراہی کونسل کا اجلاس ملا ہیبت اللہ کی زیرِ صدارت قندھار میں ہوا ہے۔

ترجمان کے مطابق طالبان کی قیادت نے عوام کے ساتھ اچھے سلوک اور انہیں سہولیات کی فراہمی سے متعلق کئی اہم فیصلے کیے ہیں جب کہ اجلاس میں شریک رہنماؤں کو ان کی ذمہ داریوں سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے اجلاس میں شریک رہنماؤں کو دی جانے والی ذمے داریوں کی وضاحت نہیں کی۔

ملا ہیبت اللہ کی سربراہی میں یہ اجلاس نئی افغان حکومت کی تشکیل کے تناظر میں تھا اور یہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب امریکہ نے پیر کی شب ہی افغانستان سے فوجی انخلا مکمل کیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کو سخت معاشی اور سیکیورٹی چیلنجز دریپش ہوں گے۔

پندرہ اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے تک افغانستان میں بے روزگاری کی شرح 30 فی صد سے زائد تھی اور نصف سے زائد آبادی سطح غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔

'اے پی' کے مطابق طالبان کی یقین دہانیوں کے باوجود کئی ملازمین واپس کام پر نہیں آئے اور ہزاروں افغان باشندے ملک سے باہر اپنے مستقبل کو تلاش کرنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔

امریکہ کے تھنک ٹینک ولسن سینٹر سے وابستہ تجزیہ کار اور جنوب ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلیمن کہتے ہیں کہ افغانستان کی نئی حکومت کے لیے معیشت ایک بڑا چیلنج ہے اگر وہ اس میں ناکام ہوئی تو طالبان کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ طالبان اس وقت اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں ایک واضح معاشی چیلنج دکھائی دے رہا ہے۔

طالبان عالمی برادری کے تحفظات کو کس طرح دور کریں گے؟ اس پر مائیکل کوگلیمن کہتے ہیں طالبان کو تجربہ کار لوگوں کی ضرورت ہے۔

ان کے بقول طالبان کے پاس پالیسی سازی کا تجربہ نہیں ہے اور ایسے میں عالمی برادری طالبان کی حکومت کے لیے فنڈز نہیں دے رہی جس سے افغان عوام سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔

معاشی امور کے ماہر اور افغانستان کی سابق حکومت کے مشیر توریک فرحدی کہتے ہیں طالبان کے لیے سب سے بڑا چیلنج حکومت میں دوسروں کو شامل کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان سمجھتے ہیں کہ انہوں بزور طاقت کامیابی حاصل کر لی ہے اور یہ ان کے لیے حیران کن ہو گا کہ وہ دوسروں کو اقتدار میں شامل کر کے انہیں اہم عہدوں پر براجمان کریں۔

فرحدی کے بقول افغانستان کی نئی حکومت اس وقت کامیاب ہو سکتی ہے اگر تمام افغان طبقات بشمول خواتین کو حکومت میں مناسب نمائندگی دی جائے۔

XS
SM
MD
LG