رسائی کے لنکس

پاکستان میں منی بجٹ کی بازگشت، مہنگائی میں مزید اضافے کے خدشات


پاکستان میں جہاں ایک جانب بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ابتر معاشی صورتِ حال کے باعث دیوالیہ ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں تو وہیں عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط پوری کرنے کے لیے منی بجٹ لانے کی بھی اطلاعات ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت حکومت اضافی ٹیکسز اور لیوی عائد کر کے 200 ارب روپے جمع کرنا چاہتی ہے جس کا لامحالہ اثر عام آدمی پر ہی پڑے گا۔

یہ اطلاعات ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب حال ہی میں پاکستان میں آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے گیس کی قیمتوں میں 74 فی صد اضافے کی سفارش کر رکھی ہے جس پر وفاقی حکومت کی منظوری نہ ملنے کی صورت میں بھی یہ فیصلہ 40 روز بعد لاگو ہو جائے گا۔

معاشی ماہرین کے مطابق بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور نئے ٹیکسز عائد کرنے کے معاملے پر حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان اختلافات برقرار ہیں۔

آئی ایم ایف جائزہ کمیشن کا دورۂ پاکستان آئندہ ماہ متوقع ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی حتمی تاریخ سامنے نہیں آ سکی۔

پاکستان کو اسٹاف لیول ایگریمنٹ کی صورت میں مزید ایک ارب ڈالر کی نئی قسط جاری ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی اور اسی صورت میں دیگر ممالک اور مالیاتی اداروں کی طرف سے بھی پاکستان کو قرض مل سکے گا۔

سیاسی صورتِ حال کے باعث پاکستان نے آئی ایم ایف کو کرائی گئی یقین دہانیاں پوری نہیں کی تھیں جس کی وجہ سے آئی ایم ایف کا منی بجٹ لانے کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد کے لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ درآمدات پر کم از کم 1 سے 3 فی صد فلڈ لیوی اور بینکوں کی زرِمبادلہ سے متعلق آمدن پر ٹیکس میں اضافہ کیا جائے گا۔ ان نئے ٹیکسز کا اطلاق فروری کے پہلے ہفتے سے ہوگا۔

معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اس معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنا ہے تو اس کے لیے ان اصلاحات پر عمل ناگزیر ہے۔ان اصلاحات کے نتیجے میں پاکستان میں مہنگائی میں 35 سے 40 فی صد اضافہ ہو سکتا ہے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں پاکستان ڈیفالٹ کرسکتا ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) کے ڈاکٹر جلیل احمد کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو اپنا ایجنڈا دیا ہے کہ جس پر وہ عمل درآمد کرانا چاہتاہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف گردشی قرضوں اور مالیاتی خسارہ کم کرانا چاہتا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ درآمدات کم ہوں اور برآمدات میں اضافہ ہو۔

اُن کے بقول مالیاتی خسارہ کم کرنے کا شارٹ کٹ یہ ہے کہ اگر اخراجات کم نہیں کیے جا سکتے تو فوری طور پر نئے ٹیکسز عائد کیے جائیں۔

ڈاکٹر جلیل کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے 230 ارب روپے کا خسارہ کم کرنے کا کہا تھا جس کے لیے منی بجٹ لانا ناگزیر ہے۔

اُن کے بقول آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کر رہا, اس نے جو پیسے دیے ہیں وہ آپ سے واپس بھی لینے ہیں۔ لہذٰا وہ حکومت سے اپنی آمدنی بڑھانے کا کہہ رہا ہے جو زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کر کے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

حالیہ حکومتی اقدامات کے بارے میں ڈاکٹر جلیل نے کہا کہ آئندہ چند دنوں میں بجلی کے بلوں میں فلڈ لیوی کے نام سے نیا ٹیکس شامل کردیا جائے گا جس کے بعد بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔

'ڈونرز کانفرنس میں رقوم کے وعدے آئی ایم ایف معاہدے کی صورت میں ہی پورے ہوں گے'

ڈاکٹر جلیل کے بقول "اگر درآمدات کو برقرار رکھا جاتا ہے تو امپورٹ بل بڑھ جاتا ہے اور ڈالر کی کمی ہوتی ہے لیکن اسے کم کرنے کی صورت میں امپورٹ ڈیوٹیز کی وصولی بھی کم ہوجاتی ہے۔ اس سے آپ کا مالیاتی خسارہ بڑھ جاتا ہے۔ اس تمام صورتِ حال میں حکومت کے لیے صرف یہ ہی ممکن رہتا ہے کہ کوئی نیا ٹیکس عائد کر دیا جائے۔"

ڈاکٹر جلیل کہتے ہیں کہ جنیوا فلڈ ڈونر کانفرنس میں ملنے والے قرضے بھی پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی صورت میں ہی ملیں گے۔

اُن کے بقول جن ملکوں نے پاکستان کو پیسے دینے کے وعدے کیے ہیں، وہ پہلے یہ دیکھیں گے کہ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے یا نہیں۔

اُن کے بقول آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر حال میں منی بجٹ لایا جائے، اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منی بجٹ کیوں نہیں لایا جارہا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس وقت الیکشن موڈ میں ہیں۔

جنیوا کانفرنس کی امدادی رقوم سے معیشت کی بحالی ممکن نہیں، تجزیہ کار
please wait

No media source currently available

0:00 0:08:11 0:00

ڈاکٹر جلیل کہتے ہیں کہ "برسراقتدار لوگ نیا منی بجٹ لا کر اور مہنگائی میں اضافہ کرکے اپنے ووٹ بینک میں خرابی نہیں چاہتے لیکن اگر آپ نے ڈیفالٹ سے بچنا ہے اور ملک کی معیشت کو بچانا ہے تو اس کے لیے منی بجٹ سمیت دیگر اصلاحات کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔"

اُن کے بقول آئی ایم ایف کا دوسرا مطالبہ ہے کہ گردشی قرضہ ختم کیا جائے۔ اس وقت صرف گیس اور بجلی کا گردشی قرضہ 4000 ارب روپے پر پہنچ چکا ہے۔ 2018 میں بجلی کا گردشی قرضہ 11 سو ارب روپے تھا جو اب بڑھ کر 2500 ارب تک پہنچ چکا ہے۔ 2018 میں گیس کا گردشی قرضہ 350 ارب روپے تھا جو اب بڑھ کر 15سو ارب تک پہنچ چکا ہے۔ یہ قرضے جی ڈی پی کا بڑا حصہ ہیں۔

معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے دسمبر میں پاکستان کو یہ اقدامات لینے کا کہا تھا، لیکن تین ہفتے گزر جانے کے باوجود پیش رفت نہیں ہو سکی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ جب تک آئی ایم ایف کو کرائی گئی یقین دہانیوں پر عمل درآمد نہیں ہو جاتا اس وقت تک پروگرام بحال نہیں ہو سکتا۔

ُ'پاکستان کے پاس اب وقت کم ہے'

ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے پاس وقت بہت کم ہے اور اب بات مہنیوں کی نہیں بلکہ ہفتوں تک آگئی ہے جن میں پاکستان کو عملی اقدام کرنے ہیں اور عملی اقدامات کرنے کی صورت میں لازمی طور پر ووٹ بینک کا نقصان ہوگا لیکن یہ ناگزیر ہے۔

'ڈالر ریٹ مارکیٹ کے مطابق کرنا ہوگا'

فرخ سلیم کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام بحالی کے لیے تین اقدامات ہر حال میں لینے ہوں گے۔ سب سے پہلا قدم ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی روپے کی قیمت لانا ہے۔ اس وقت انٹربینک 227 روپے کا ریٹ دے رہا ہے جب کہ حوالہ ہنڈی کا ریٹ 270 روپے کا ہے، یہ بہت بڑا فرق ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ مارکیٹ کے مطابق روپے کی قدر کو لایا جائے۔ اس کو بہت زیادہ عرصہ تک برقرار نہیں رکھا جاسکتا کیوں کہ اس قدر پر رکھنے کے لیے اسٹیٹ بینک کو ڈالر مارکیٹ میں دینے پڑ رہے ہیں اور چار ارب ڈالر کے ریزرو کے ساتھ آپ کس وقت تک اس ڈالر کو مارکیٹ ریٹ سے الگ رکھ سکتے ہیں۔

ڈاکٹر جلیل کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے مطالبات میں سے ایک روپے کی قدر کو مارکیٹ کرنا بھی ہے۔ اسس وقت آپ روپے کی قدر کو بہتر رکھنے کے لیے اسٹیٹ بینک سے پیسے دے رہے ہیں۔ اس سے دو نقصان ہو رہے ہیں کہ پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر 10 سے 12 فی صد تک گر چکے ہیں۔

کیا پاکستان کے معاشی مسائل کا کوئی حل ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:25 0:00

اُن کے بقول ڈالر بڑی تعداد میں اسمگل ہورہا ہے، اس میں ایک بات لازم ہے کہ آپ چاہیں یا نہ چاہیں آپ کو اسے مارکیٹ ریٹ پر لانا ہوگا۔ ماضی میں بھی جب جب اسے کم کرنے کی کوشش کی گئی اور مارکیٹ میں ڈالر پھینکے گئے تو اس کے کچھ عرصے کے بعد آپ کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔

ڈاکٹر جلیل کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کتنی دیر تک اس صورتِ حال کو سنبھال سکتا ہے، یہ بالکل معیشت کے وینٹی لیٹر پر ہونے کی طرح ہیں۔ آپ جب جب وینٹی لیٹر سے اتاریں گے اس وقت اس کی موت ہو گی لیکن اسے اتارے بغیر بھی آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔

ڈاکٹر جلیل کا کہنا تھا کہ پاکستان کو چاہیے کہ ڈالر کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑ دے ، اس سے یہ کتنا ڈی ویلیو ہوسکتا ہے۔ مارکیٹ میں اس وقت اس کا ریٹ 270 تک ہے تو مطلب یہ کہ اس کی اصل قیمت 260 سے 265 کے درمیان ہے۔ یہ اس کی حقیقی ویلیو ہے، اس کو جب تک آپ روکے رکھیں گے آپ کی ریمٹنس کم ہوتی رہیں گی۔ ہر حال میں قدر کم کرنی ہو گی۔

ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل کرنا اور نہ کرنا دونوں صورتوں میں پاکستان کے لیے مشکلات ہیں۔ اگر پاکستان ان پر عمل کرتا ہے تو پاکستان میں قیمتوں میں 35 سے 40 فی صد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG