رسائی کے لنکس

اوسلو مذاکرات: 'طالبان عالمی برادری کے مطالبات کو سنجیدہ نہیں لے رہے'


اوسلو مذاکرات میں طالبان رہنما انس حقانی بھی شریک تھے۔
اوسلو مذاکرات میں طالبان رہنما انس حقانی بھی شریک تھے۔

ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں افغان طالبان کی حکومت کے نمائندوں کی مغربی ملکوں کے سفارت کاروں اور امدادی گروپ کے نمائندوں سے ہونے والی تین روزہ ملاقات کو ماہرین اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ افغان امور کے ماہرین کہتے ہیں اوسلو مذاکرات ماضی قریب میں طالبان رہنماؤں کی یورپی نمائندوں سے ہونے والی بات چیت کا نتیجہ ہیں۔

طالبان حکومت کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے ناروے کے دورے سے متعلق منگل کو کہا تھا کہ اس طرح کے دورے افغان حکومت کو دنیا کے مزید قریب لانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

افغان امور کے ماہرین کے خیال میں طالبان چاہتے ہیں کہ عالمی برادری ان کی حکومت کو تسلیم کرے تاکہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی روابط استوار کر سکیں لیکن وہ اپنی سخت گیر پالیسیوں میں لچک کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔

بین الاقوامی برادری اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ افغانستان کی امداد جاری کرنے سے پہلے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ طالبان کس طرز کی حکومت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کے مطابق طالبان کو کابل کا اقتدار سنبھالے پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن اس دوران ملک میں انسانی خصوصاً خواتین کے حقوق کی پامالی کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کے بقول افغانستان میں وقت گزرنے کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالی کی صورتِ حال مزید سنگین شکل اختیار کر سکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سمیع یوسفزئی نے کہا کہ طالبان عالمی کانفرنس کے موقع پر مختلف ملکوں٘ کے رہنماؤں، سیاسی شخصیات اور سفارتی اہلکاروں سے تو ملتے ہیں لیکن کابل میں بیٹھے حامد کرزئی، عبداللہ عبداللہ، گلبدین حکمت یار اور دیگر سیاسی شخصیات سے ملاقات نہیں کرتے۔

عالمی برادری کی جانب سے طالبان پر خواتین اور انسانی حقوق کی پاسداری یقینی بنانے پر زور دینے کے سوال پر سمیع یوسفزئی نے کہا کہ طالبان اس طرح کے مطالبات کو سنجیدہ نہیں لیتے کیوں کہ ان کے بقول، طالبان جمہوری نظام کا حصہ نہیں ہیں اور ان پر کوئی خاص دباؤ بھی نہیں ہے۔

'طالبان ذمے دار حکومت کی طرح اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں'

طالبان حکومت کے قائم مقام وزیرِ خارجہ یا کسی بھی رہنما کا دورۂ اوسلو 15 اگست کو ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد یہ پہلا دورۂ یورپ تھا۔ اس سے قبل وہ کئی بار چین، قطر، روس، پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے دورے کر چکے ہیں۔

افغان امور کے ماہر اور شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سویڈن میں مقیم محقق عبدالسید کا کہنا ہے کہ طالبان کی کوشش ہے کہ وہ عالمی دنیا خصوصاً مغربی ممالک کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ ذمے دار حکومت کی طرح افغانستان پر اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔

افغانستان: 'طالبان دھڑوں میں خواتین کے حقوق پر اتفاق رائے نہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:16 0:00

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر قابلِ قبول ہونے کے لیے طالبان کو بے شمار مطالبات کا سامنا ہے جن میں خواتین کے حقوق، اظہارِ رائے کی آزادی اور تمام افغان اکائیوں کو حکومت میں شامل کرنا سرِ فہرست ہے۔

اوسلو میں ہونے والے مذاکرات کے موقع پر افغان خواتین نے احتجاج کیا ۔ افغانستان کا پرچم تھامے خواتین نے اس ہوٹل کی جانب بڑھنے کی کوشش کی جہاں طالبان اور یورپی سفارت کاروں کے مابین مذاکرات ہو رہے تھے تاہم سیکیورٹی اہلکاروں نے انہیں وہاں جانے سے روک دیا۔

'طالبان کے بیان اور عمل میں فرق ہے'

افغان خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن سودابہ کبیری کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان نے اوسلو میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے کچھ یقین دہانیاں کرائی ہیں لیکن عملی طور پر وہ ایسا کچھ نہیں کرتے۔

ان کےبقول اگر طالبان کے ماضی کے کردار کو دیکھا جائے تو وہ اسے سامنے رکھ کر کہہ سکتی ہیں کہ افغانستان میں خواتین کی بہتری کے لیے کچھ بھی نیا نہیں ہونے والا۔

سودابہ کبیری نے کہا کہ طالبان کی حکومت کے بعد خواتین گھروں تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں اور وہ ملک چھوڑنے کے لیے بے تاب ہیں۔

سودابہ کہتی ہیں طالبان کے بیانات اور عملی اقدامات ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس لیے عالمی برادری کو بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔

XS
SM
MD
LG