رسائی کے لنکس

رفح کراسنگ  اتنی اہم کیوں ہے؟


رفح کراسنگ ۔ فائل فوٹو
رفح کراسنگ ۔ فائل فوٹو

رفح کراسنگ غزہ کی پٹی کو مصر سے ملانے والا واحد زمینی راستہ ہے جسے اسرائیل حماس جنگ کے بعد مرکزی اہمیت حاصل ہو گئی ہے کیونکہ اسرائیل نے غزہ کی برسوں سے ناکہ بندی کر رکھی ہے اور حالیہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی اس نے ناکہ بندی کو مزید سخت کرتے ہوئے بجلی، پانی، خوراک اور ایندھن کی آمد مکمل طور پر روک دی ہے۔

رفح کراسنگ کی ایک اور اہمیت یہ بھی ہے کہ اس سرحدی گزرگاہ پر اسرائیل کاکنٹرول نہیں ہے۔

اب رفح کراسنگ وہ واحد زمینی راستہ ہے جس کے ذریعے بیرونی ممالک اور امدادی ادارے محدود پیمانے پر غزہ کے متاثرین تک انسانی ہمدردی کی امداد پہنچا سکتے ہیں جس کے لیے انہیں اسرائیل کی اجازت درکار ہوتی ہے۔

اسرائیل کے جنگی طیارے سات اکتوبر سے غزہ کی پٹی پر مسلسل بم برسا رہے ہیں جس سےرفح کراسنگ بھی بچ نہیں سکی اور وہاں بھی متعدد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

غزہ سے جانے والے افراد رفح کراسنگ کے گیٹ کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ 16 اکتوبر 2023
غزہ سے جانے والے افراد رفح کراسنگ کے گیٹ کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ 16 اکتوبر 2023

اسرائیل حماس جنگ اور فلسطینی متاثرین

ایندھن ختم ہونے کے بعد سے غزہ کا واحد بجلی گھر بند ہو چکا ہے۔متاثرین کے گھر اور خیمے تاریک ہونے کے ساتھ اسپتالوں میں زخمیوں اور مریضوں کی جان بچانے کے لیے اب طبی عملہ جنریٹرز پر انحصار کر رہا ہے لیکن ان کے پاس بھی ایندھن کی شدید قلت ہے۔

غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ بمباری سے عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد 6 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جب کہ 15 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں جن کے علاج کے لیے ادویات اور طبی آلات دستیاب نہیں ہیں۔ تین اسپتالوں میں عملی طور پر کام بند ہو چکا ہے اور ایک اسپتال میں دھماکہ ہونے سے طبی عملے سمیت پانچ سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔اس حملے پر حماس اسرائیل کو اور اسرائیل فلسطینی جہادی تنظیم کو مورود الزام ٹہراتا ہے۔

اسرائیلی فضائی حملے کے بعد چند فلسطینی اپنے نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ 24 اکتوبر 2023
اسرائیلی فضائی حملے کے بعد چند فلسطینی اپنے نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ 24 اکتوبر 2023

غزہ کے متاثرین کے لیے امداد

بین الاقوامی کوششوں کے بعد اسرائیل نے 21 اکتوبر کو امدادی قافلوں کو محدود پیمانے پر محدود وقت کے لیے رفح کراسنگ عبور کرنے کی اجازت دی۔ اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ اس دوران غزہ پہنچائی جانے والی امداد 23 لاکھ کی آبادی کے لیے ناکافی ہے جنہیں صاف پانی، خوراک، ادویات اور ایندھن کی اشد ضرورت ہے۔

فلسطینی ہلال احمر نے بتایا کہ اسے رفح کراسنگ کے ذریعے 26 اکتوبر تک 74 امدادی ٹرک موصول ہوئے ہیں جب کہ اقوام متحدہ کے مطابق متاثرین کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کےلیے روزانہ تقریباً 100 ٹرکوں کی ضرورت ہے۔

ان ٹرکوں کے ذریعے پانی، خوراک اور ادویات فراہم کی جا رہی ہیں لیکن اسرائیل نے ایندھن لانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس ایندھن کو جنگ میں استعمال کر سکتا ہے۔

انسانی ہمدردی کی مدد لے جانے والے ٹرکوں کا پہلا قافلہ رفح کراسنگ سے غزہ کی پٹی میں داخل ہو رہا ہے۔ 21 اکتوبر 2023
انسانی ہمدردی کی مدد لے جانے والے ٹرکوں کا پہلا قافلہ رفح کراسنگ سے غزہ کی پٹی میں داخل ہو رہا ہے۔ 21 اکتوبر 2023

رفح کراسنگ سے امداد کی فراہمی میں کیا مشکلات ہیں؟

بنیادی طور پر رفح کراسنگ کے ذریعے امداد کی فراہمی اور اس کی نوعیت بنیادی طور پر اسرائیل کی اجازت سے مشروط ہے اور دوسرا یہ کہ یہ سرحدی گزرگاہ عام شہریوں کی آمدورفت کے لیے ہے اور یہاں بڑے سائز کی امدادی گاڑیوں کی سہولت موجود نہیں ہے۔

اسرائیل سے معاہدے کے تحت امدادی ٹرکوں کو غزہ امداد لے جانے کے لیے رفح کراسنگ تک پہنچنے سے پہلے بارڈر کے ساتھ تقریباً 25 میل کا سفر کر کے مصر اور اسرائیل کے درمیان سرحدی گزرگاہ العوجہ یا نتزانہ تک جانا پڑتا ہے جہاں سامان کو ٹرکوں سے اتارا جاتا ہے اور اسرائیلی حکام کے معائنے کے بعد اسے ان ٹرکوں میں لوڈ کیا جاتا ہے جو رفح کراسنگ سے گزر سکتے ہوں۔ جب کہ امدادی سامان لانے و الے بڑے ٹرک مصر واپس چلے جاتے ہیں۔

اس سے قبل فلسطینیوں کے لیے انسانی ہمدردی کی امداد اسرائیل اور مصر کی سرحدی گزرگاہ کے ذریعے لائی جاتی رہی ہے اور اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی 1950 کی دہائی سے اس طریقے پر عمل کر رہی ہے۔

مصر نے رفح کراسنگ کے راستے فلسطینیوں کا اںخلا روکنے کے لیے بڑی تعداد میں فوجی تعینات کر دیے ہیں۔ 20 اکتوبر 2023
مصر نے رفح کراسنگ کے راستے فلسطینیوں کا اںخلا روکنے کے لیے بڑی تعداد میں فوجی تعینات کر دیے ہیں۔ 20 اکتوبر 2023

رفح کراسنگ پر کس کا کنٹرول ہے؟

رفح کراسنگ غزہ کی پٹی کے جنوب میں اسرائیل، مصر اور بحیرہ روم کے درمیان ایک تنگ راستہ ہے جس پر مصر کا کنٹرول ہے۔

مصر نے رفح کراسنگ سے آمدورفت پر پابندی کیوں لگائی ہے؟

رفح کراسنگ سینا کے قریب واقع ہے جہاں 2013 میں مصر کو اسلام پسندوں کی جانب سے ایک شورش کا سامنا کرنا پڑا تھاجسے بڑی حد تک دبا دیا گیا تھا۔

چونکہ 2007 سے غزہ پر عسکریت پسند گروپ حماس کا کنٹرول ہے اس لیے مصری حکام نے رفح کراسنگ سے گزرنے والوں پر کڑی نظر رکھنے کے لیے آمد ورفت محدود کر دی ہے۔

اسرائیل اور فلسطینی گروپوں کے درمیان تنازعات کی صورت میں مصر ثالثی کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ان مواقعوں پر بھی وہ رفح کراسنگ کو بند کرتا رہا ہے تاکہ انخلا کو روکا جا سکے۔

رفح کراسنگ کے قریب مصر کا واچ ٹاور۔ مصر رفح کراسنگ سے آمد ورفت کی محدود اجازت دیتا ہے۔ فائل فوٹو
رفح کراسنگ کے قریب مصر کا واچ ٹاور۔ مصر رفح کراسنگ سے آمد ورفت کی محدود اجازت دیتا ہے۔ فائل فوٹو

مصر کو خدشہ ہے کہ غزہ میں صورت حال بگڑنے سے فلسطینی اس کے ملک میں داخل ہو جائیں گے اور پناہ گزینوں کے علاقے اسرائیل کے خلاف کارروائیوں کا مرکز بن جائیں گے، جس سے امن و امان کے مسائل سمیت خطے میں دیگر پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں گی۔ اس خطرے کے پیش نظر وہ رفح کراسنگ سے آمدورفت کے بارے میں محتاط ہے۔

اسرائیل حماس جنگ اور عرب ریاستیں

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ اور بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کی ہلاکتوں سے علاقے کی عرب ریاستیں بھی تشویش میں مبتلا ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ اس سے فلسطینی مہاجرین کی نئی لہر جنم لے سکتی ہے جس کا رخ زیادہ تر عرب ملکوں کی طرف ہو گا۔

اس کی نمایاں مثال اردن ہے جہاں اسرائیل کے قیام کے بعد بے گھر ہونے والے لاکھوں فلسطینی رہ رہے ہیں۔ کوئی بھی عرب ملک ایسے لاکھوں پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے جن کی واپسی کے امکانات محدود ہوں۔

پناہ گزینوں کے ممکنہ خطرے سے بچنے کے لیے خطے کے ممالک اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بند کرانے پر زور دے رہے ہیں۔

(اس رپورٹ کے لیے کچھ تفصیلات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG