رسائی کے لنکس

فیض اور فائز


جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید، فائل فوٹو
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید، فائل فوٹو

مذہبی جماعت تحریک لبیک نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے نومبر 2017 میں فیض آباد میں دھرنا دیا تھا۔ اس دھرنے کو ختم کرانے کے لیے کیے گئے معاہدے پر حکومت اور تحریک لبیک کے رہنماؤں کے علاوہ ایک فوجی افسر نے بھی دستخط کیے تھے۔ ان کا نام میجر جنرل فیض حمید تھا۔

ان کا نام جولائی 2018 میں ہوئے عام انتخابات سے پہلے اور بعد بھی سامنے آتا رہا اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے ان پر الزام لگایا کہ وہ سیاسی رہنماؤں کی وفاداریاں تبدیل کروا رہے ہیں اور الیکشن انجینئرنگ میں ملوث ہیں۔

فیض آباد دھرنے کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچا اور میجر جنرل فیض حمید کا ذکر وہاں بھی آیا۔ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سنایا تو حکم دیا کہ ان فوجی افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے جنھوں نے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ یہ فیصلہ سنانے والے دو ججوں میں سے ایک جسٹس فائز عیسیٰ شامل تھے۔

آج فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف شیخ رشید احمد اور ایم کیو ایم نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کی ہیں جب کہ حکومت کی جانب سے آئندہ ہفتے ایسی ہی درخواست جمع کرائے جانے کا امکان ہے۔

بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق نظرثانی کی درخواست میں جسٹس فائز عیسیٰ پر تعصب کے الزامات لگائے ہیں۔ ماہرین قانون کا خیال ہے کہ یہ ایک انوکھی مثال ہے۔

جسٹس وجیہہ الدین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نظرثانی کی درخواست میں جسٹس فائز عیسیٰ کی شکایت کرنا غیر معمولی ہو گا۔ نظرثانی کی درخواست وہی بینچ سنتا ہے جس نے پہلے سماعت کی ہو۔ اگر جج سے کوئی شکایت ہو تو اس کا فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔

سینئر کورٹ رپورٹر اور تجزیہ کار مطیع اللہ جان نے کہا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت صدیقی کی طرح کہیں تقریر نہیں کی۔ یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا جو انھوں نے شواہد، گواہوں کے بیانات اور وکلا کے دلائل سننے کے بعد لکھا تھا۔

اسلام آباد کے سینئر وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے اپنا فیصلہ حکومت کے علاوہ آئی ایس آئی کو بھی بھجوایا تھا اور کہا تھا جو لوگ اس میں ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس جمعہ کو میجر جنرل فیض حمید کو تین دوسرے افسروں کے ساتھ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔

ایئر مارشل ریٹائرڈ شاہد لطیف کہتے ہیں کہ الزامات کی بنیاد پر کسی کی ترقی نہیں روکی جا سکتی۔ جنرل حمید کی پروموشن کا وقت آ گیا تھا اس لیے انھیں ترقی دے دی گئی۔

شاہد لطیف نے کہا کہ تحریک لبیک نے حکومت سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ فوجی افسروں نے حکومت کی درخواست پر بات کی اور معاہدہ کروایا۔

لیفٹیننٹ جنرل بن جانے والے فیض حمید 2022 میں نئے آرمی چیف کے امیدوار جرنیلوں کی فہرست میں سینیارٹی کے حساب سے چوتھے نمبر پر ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG