رسائی کے لنکس

پاکستان، روایتی میڈیا پر پابندیاں، سوشل میڈیا افواہوں کا گڑھ بن گیا


پاکستانی وزارت اطلاعات کا ایک ٹویٹر اکاونٹ، جس کے بارے میں دعوی کیا گیا کہ وہ جعلی خبروں کا پردہ چاک کرے گا۔ فائل فوٹو
پاکستانی وزارت اطلاعات کا ایک ٹویٹر اکاونٹ، جس کے بارے میں دعوی کیا گیا کہ وہ جعلی خبروں کا پردہ چاک کرے گا۔ فائل فوٹو

حالیہ دنوں میں کالعدم قرار دی جانے والی جماعت تحریک لبیک کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان لاہور میں ہونے والی جھڑپوں کی میڈیا کوریج پر ملک کی الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے عائد کی گئی پابندی کے بعد الیکٹرانک میڈیا اس معاملے پر کوئی خبر نشر نہیں کرسکتا، لیکن میڈیا اداروں کا کہنا ہے کہ انہیں حکومتی ترجمانوں کے بیانات نشر کرنے کی ہدایات بھی دی جا رہی ہیں۔

ایسے میں سوشل میڈیا افواہوں کا گڑھ بنا رہا اور لاکھوں کی تعداد میں جعلی پوسٹوں کے ذریعے لاہور میں کئی ہلاکتیں کی خبریں ایک سے دوسرے اکاونٹ تک شئیر کی گئیں، جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوا۔

صحافتی تنظیموں نے صورتحال کی میڈیا کوریج پر عائد کی گئی پابندی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا بند ہونے سے سوشل میڈیا پر افواہوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ایسی افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

پیر کے روز لاہور میں کالعدم ٹی ایل پی کے مرکز پر ہونے والے آپریشن کے حوالے سے پاکستانی میڈیا پر مکمل بلیک آؤٹ رہا اور حکومتی ہدایات کے پیش نظر کسی میڈیا پر کوئی خبر نہیں دکھائی گئی، صرف حکومتی موقف کو تمام چینلز پر دکھایا جارہا تھا۔

ایسے میں لاہور کی صورتحال جاننے کے لیے صارفین کی بڑی تعداد نے سوشل میڈیا کا رخ کیا۔ جہاں ٹوئٹر سمیت مختلف سوشل میڈیا سائٹس پر ایسی تصویریں اور فوٹیجز شئیر کی جارہی تھیں، جن میں لاہور میں ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر بتائی جارہی تھی۔ معلومات کی عدم دستیابی کے باعث "لاہور لہو لہو ہے"، جیسے ٹرینڈ بننا شروع ہو گئے۔

سینئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ معلومات کو روکنا ہمیشہ نقصان دہ ہوتا ہے، کل جو کچھ لاہور میں ہوا، سوشل میڈیا پر اس کی رپورٹنگ صحافی نہیں، عام لوگ کر رہے تھے، جن میں صحافتی تقاضوں کا خیال رکھا جانا ممکن نہیں تھا۔

مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ماضی میں یہ بھی کوشش کی جاتی رہی کہ مختلف چینلز کو بند کر کے معلومات دینے سے روکا گیا لیکن اس کا صرف نقصان ہوا۔ دوسری جانب ٹی ایل پی کا میڈیا ونگ مضبوط ہے اور ان کا سوشل میڈیا پر بہت زیادہ کنٹرول بھی رہا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنا موقف عوام تک پہنچانے میں کامیاب رہے، ایسی صورت میں اگر میڈیا کو باخبر رکھا جاتا اور صحافیوں کے معلومات کو مناسب تحقیق کے ساتھ اپنے میڈیا اداروں کے ذریعے دینے پر پابندی عائد نہ کی گئی ہوتی، تو افواہوں کو پھیلنے کاموقعہ نہ ملتا اور وہ ہمدردیاں جو بعض عناصر کو ملیں، وہ نہ مل پاتیں۔

واضح رہے کہ لاہور کی صورتحال کے بارے میں مختلف ٹرینڈز بنائے گئے اور ان میں سے ایک ٹرینڈ "سول وار ان پاکستان" کے نام سے تھا۔

اس بارے میں گلوبل رائٹس اور پاکستانی میڈیا پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے 'میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی' کے اسد بیگ کہتے ہیں کہ عام طور پر روایتی یا مین سٹریم میڈیا کی معلومات کو سوشل میڈیا کی معلومات سے زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے۔ لیکن صحافتی اداروں پر صورتحال کی رپورٹنگ پر پابندی کی وجہ سے بعض ایسی جعلی خبریں سوشل میڈی اکاونٹس سے شئیر کی گئیں، جنہیں بعض لوگ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ سب سے زیادہ اخبارات پر اعتبار کیا جا سکتا ہے، دوسرے نمبر پر الیکٹرانک میڈیا اور تیسرے نمبر پر سوشل میڈیا ہے۔ جب مین سٹریم میڈیا کو بند کیا جاتا ہے تو خلا پیدا ہوتا ہے، اور مس انفارمیشن کے لیے جگہ بن جاتی ہے۔

اسد بیگ نے کہا کہ سرحد پار سے بھی غلط معلومات پر مبنی اطلاعات آتی رہی ، ایک سوشل میڈیا ٹرینڈ 'سول وار ان پاکستان' کا 61 فیصد مواد بھارت سے آرہا تھا اور اس میں سے بھی زیادہ تر نئی دلی سے آرہا تھا. اگر پاکستان میں ٹی وی چینلز پر کوریج کی پابندی عائد نہ کی جاتی تو ایسی جعلی معلومات کو عام ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی اپنی زمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ ایسی صورتحال میں جانوں کا نقصان ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تک سوشل میڈیا اداروں کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا یا نہ ہونے کے برابر یا بہت دیر سے آیا ہے۔ ایسے میں، اسد بیگ کے بقول، حکومت کو کسی واضح حکمت عملی کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔

سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نگہت داد کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر کنٹرول بہت مشکل ہے۔ ایسے میں الیکٹرانک میڈیا کو بند کرنا ایک بہت بڑی غلطی تھی۔انفارمیشن بہت زیادہ تھی لیکن اس کے پھیلاؤ کے لیے مین سٹریم میڈیا بند تھا، ایسے میں فیک نیوز سے سچ تلاش کرنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں ہوتا۔ ضروری تھا کہ حقائق بتانے کے لئے مستند خبر کے روایتی ذرائع یعنی صحافتی اداروں کی مدد لی جاتیں، تاکہ جعلی خبریں پھیلنے نہ پاتیں۔

پاکستانی ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لاہور کی صورتحال کے معاملے پر جعلی خبریں پھیلانے والے اکاؤنٹس کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشنز اتھارٹی ایسے اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کر رہی ہے، جن سے جعلی خبریں عام کی گئیں ۔ جن کی تصدیق کرنے کے بعد سوشل میڈیا کمپنیوں سے ان اکاؤنٹس کو بند کرنے کی درخواست کی جائے گی۔

واضح رہے کہ لاہور میں کالعدم تحریک کے خلاف ہونے والے آپریشن کے بارے میں سوشل میڈیا پر اس وقت بھی ایسا بہت سا مواد موجود ہے، جو مختلف مستند ذرائع سے غلط ثابت ہو چکا ہے لیکن درست معلومات نہ ہونے کی وجہ سے عوام کی طرف سے ایسے اکاؤنٹس کو بہت کم تعداد میں پی ٹی اے کو رپورٹ کیا جا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG