رسائی کے لنکس

امریکہ کی خصوصی ایلچی برائے مسلم طبقات کی دہلی کے سرکردہ مسلمانوں سے ملاقاتیں


فرح پنڈت
فرح پنڈت

امریکی صدر براک اوباما کی خصوصی ایلچی برائے مسلم طبقات فرح پنڈت نے دہلی اور ممبئی کا دورہ کر کے مقتدر مسلم شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اوباما انتظامیہ مسلمانوں اور امریکہ کے مابین غلط فہمیوں کو دور کرنے اور دونوں میں بہتر ہم آہنگی اور اعتماد و احترام کے قیام میں ایمان داری کے ساتھ کوشاں ہے۔

جب دو روز قبل وہ دہلی پہنچیں تو دہلی کی سرکردہ مسلم شخصیات نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ انھوں نے بھی مقتدر مسلمانوں سے ملاقاتیں کرنے اور ان کو مسلم دنیا کے لیے صدر اوباما کی پالیسیوں سے واقف کرانے میں کسی بخل سے کام نہیں لیا۔

معلوم ہونا چاہیئے کہ فرح پنڈت، جنھیں امریکی صدر نے دنیا بھر کے مسلم طبقات سے مذاکرات اور رابطے قائم کرنے کی ذمے داری سونپی ہے، سری نگر کے ایک خاندان میں پیدا ہوئی ہیں اور امریکہ اور برطانیہ کی تعلیم یافتہ ہیں۔

انھوں نے مسلمانوں کے ایک جلسے میں، جسے باوقار انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا، اعلان کیا کہ امریکہ باہمی اعتماد و احترام میں یقین رکھتا ہے اور اسی بنیاد پر دنیا بھر کے مسلمانوں سے رابطے اور خوش گوار تعلقات کا خواہش مند ہے۔ہندوستان کے مسلمان بھی ہمارے لیے اتنے ہی اہم ہیں جتنے کہ امریکی مسلمان۔

انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ براک اوباما انتظامیہ ایک ایسا ماحول قائم کرنا چاہتی ہے جس سے پوری دنیا میں امن قائم ہو۔ اس سلسلے میں مغربی ایشیا کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور امریکہ کے مابین بھی بہتر اور دوستانہ تعلقات کے قیام کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انھوں نے زور دے کر کہا کہ صدر اوباما مسئلہ فلسطین کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنا چاہتے ہیں اسی لیے اقتدار سنبھالنے کے اگلے روز ہی انھوں نے مغربی ایشیا کے لیے ایک سینئر سفارت کار کو متعین کیا تھا۔انھوں نے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ امریکی خارجہ پالیسی میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاتا۔

اس سے قبل فرح پنڈت نے دہلی کی جامع مسجد کے امام مولانا سید احمد بخاری سے ان کی رہائش گاہ پر جا کر ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ اوباماایسے پہلے امریکی صدر ہیں جنھوں نے مسئلہ فلسطین کو اتنی اہمیت دی ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ عراق، افغانستان اور فلسطین کے قضیے کو جو کہ بہت ہی پیچیدہ ہیں، ترجیحی بنیاد پر اور جلد از جلد حل کیا جائے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہم دنیا بھر کے مسلمانوں سے جو کہ عالمی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ ہیں، مذاکرات اور افہام و تفہیم کرنا چاہتے ہیں اور صدر اوباما نے قاہرہ سے اس کا آغاز کیا ہے۔مسلمان جہاں جہاں بستے ہوں، وہ اقلیت میں ہوں یا اکثریت میں، ہم ان سے بامقصد بات چیت کرنے جا رہے ہیں تاکہ مسلمانوں اور امریکہ کے مابین جو کچھ غلط فہمیاں پائی جا رہی ہیں ان کو دور کیا جائے۔

مولانا احمد بخاری نے جب ان کے سامنے فلسطین، عراق اور افغانستان کا مسئلہ اٹھایا تو انھوں نے کہا کہ وہ اس سے واقف ہیں اور نہ صرف ان معاملات کو بلکہ ان کی پیچیدگیوں کو بھی گہرائی سے سمجھتی ہیں۔

فرح پنڈت نے کہا کہ انہیں مسلمانوں سے ربط ضبط اور مذاکرات کی جو ذمے داری سونپی گئی ہے وہ اس کو پورا کریں گی اور اس بات پر زور دیں گی کہ مسلمانوں کی نئی نسل کے ذہن کو سمجھا جائے اور دنیا بھر میں قیام امن کی جو کوششیں ہو رہی ہیں ان میں ان کو بھی سمجھ کر شامل کیا جائے۔

قابل ذکر ہے کہ فرح پنڈت نے جن جن مسلمانوں سے ملاقاتیں کیں، ان تمام نے عراق، افغانسان اور فلسطین کے مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا اور کہا کہ جب تک دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی زیادتیوں کو دور نہیں کیا جائے گا اور ان کو اعتماد میں نہیں لیا جائے گا، یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔

سید احمد بخاری نے ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات واحساسات سے انہیں آگاہ کیا اور کہا کہ براک اوباما کے برسراقتدارآنے کے بعد امریکی پالیسیوں میں کچھ تبدیلی تو نظر آتی ہے لیکن فلسطین، افغانستان اور عراق کے تعلق سے امریکی پالیسی جوں کی توں نظر آ رہی ہے اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ فلسطینی عوام پر اب بھی ظلم و زیادتی کی جا رہی ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ صدر اوباما سے عالم اسلام کو بہت سی امیدیں ہیں اور مسلمان چاہتے ہیں کہ افغانستان اور عراق سے غیر ملکی افواج واپس جائیں اور وہاں کے عوام کو اپنے فیصلے خود لینے کا اختیار ملنا چاہیئے۔


انھوں نے مزید کہا کہ دنیا میں پائیدار امن اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب فلسطین کا مسئلہ حل ہو۔

جامعہ ہمدرد یونیورسٹی کے وائس چانسلر جی این قاضی نے کہا کہ اب بھی مسلمانوں کے خلاف امریکہ میں امتیاز پایا جاتا ہے۔

انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے صدر سراج الدین قریشی نے کہا کہ صدر اوباما سے دنیا کو بہت سی امیدیں ہیں اور یہ امیدیں قاہرہ میں ان کی تقریر سے دوچند ہو گئی ہیں۔

کلچرل سینٹر کے سینئر نائب صدر صفدر ایچ خان نے فرح پنڈت سے اپیل کی کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات و احساسات سے صدر امریکہ کو ضرور آگاہ کریں۔

اس موقع پر امریکی سفارت خانے میں ایک اہم منصب پر فائز عذرا ضیا نے کہا کہ ہمارا یقین ہے کہ عراق اور افغانسان کے عوام کو اپنے فیصلے خود لینے کا اختیار ضرور ملے گا۔

فرح پنڈت نے جن سرکردہ مسلمانوں سے ملاقاتیں کیں ان میں مذکورہ افراد کے علاوہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمود الرحمن، دہلی پولیس کے اے سی پی قمر احمد، ملک ذہین، ایچ آر خان سہیل، وصی احمد نعمانی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، ایم اے حق اور متعدد لوگ شامل ہیں۔

انھوں نے دہلی کے اردو صحافیوں سے بھی ملاقات کی۔ اس کے بعد وہ ممبئی گئیں اور وہاں بھی انھوں نے سرکردہ مسلم شخصیات اور اردو صحافیوں سے ملاقاتیں کیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG