رسائی کے لنکس

کشمیر: زیرِ حراست فاروق عبد اللہ سے نیشنل کانفرنس کے وفد کی ملاقات


فاروق عبداللہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں — فائل فوٹو
فاروق عبداللہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں — فائل فوٹو

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی اہم سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے 15 رکنی وفد نے سری نگر میں سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبد اللہ اور ان کی اہلیہ سے ملاقات کی۔

مقامی انتظامیہ نے کل اس وفد کو ان سے ملنے کی اجازت دی تھی۔

خیال رہے کہ بھارت کے آئین میں کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے فاروق عبد اللہ اور ان کے بیٹے عمر عبد اللہ نظر بند ہیں۔

فاروق عبد اللہ کو ایک سخت قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ جس پر سیاسی و عوامی حلقوں سے شدید رد عمل بھی سامنے آیا تھا۔

وفد کے قائد اور نیشنل کانفرنس کے صوبائی صدر دیویندر سنگھ رانا فاروق عبد اللہ سے ملنے کی غرض سے آج صبح نئی دہلی سے سرینگر کے لیے بذریعہ طیارہ روانہ ہوئے تھے۔

ملاقات کے بعد دیویندر سنگھ رانا نے کہا کہ اگر سیاسی عمل کو شروع کرنا ہے تو سیاسی شخصیات کو رہا کرنا ہوگا۔

انہوں نے عمر عبد اللہ سے بھی ملاقات کی۔

دیویندر سنگھ رانا کا کہنا تھا کہ دونوں ٹھیک ہیں اور ان کا جذبہ بلند ہے۔ تاہم انہیں ریاست کی موجودہ صورت حال سے تکلیف ہے۔

ہفتے کو نیشنل کانفرنس کے ترجمان مدن مٹو نے کہا تھا کہ دونوں رہنماؤں سے ملاقات کا فیصلہ پارٹی کے سینئر عہدے داروں اور جموں کے رہنماوں کے ساتھ ہونے والی ایک ہنگامی ملاقات میں کیا گیا۔

جموں و کشمیر انتظامیہ نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ سیاست دانوں کو صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد یکے بعد دیگرے رہا کیا جائے گا۔

کشمیر کے مختلف علاقوں میں احتجاج

جموں و کشمیر کے حالات میں اب بھی کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ سورا اور دیگر علاقوں میں عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

اب بھی مواصلات اور انٹرنیٹ پر پابندی عائد ہے جبکہ سیل فون نیٹ ورک بھی بند ہیں البتہ لینڈ لائن فون مشروط طور پر بحال کی گئی ہے۔

مقامی انتظامیہ نے 24 اکتوبر کو ہونے والے بلاک ڈیولپمنٹ کونسل یعنی بی ڈی سی کے انتخابات کے پیش نظر جموں کے کچھ سیاست دانوں کو رہا کر دیا ہے جبکہ انہیں تمام سیاسی سرگرمیوں میں شرکت کی اجازت دے دی ہے۔

امریکی سینیٹر کو دورے کی اجازت نہیں دی گئی

دریں اثنا انتظامیہ نے ایک امریکی سنیٹر کرس وین ہولین کو کشمیر کے دورے کی اجازت نہیں دی۔

انہوں نے نئی دہلی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سری نگر جا کر دیکھنا چاہتے تھے کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے لیکن بھارتی حکومت نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی۔

انگریزی روزنامے 'انڈین ایکسپریس' کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے ان سے کہا کہ کشمیر جانے کے لیے یہ وقت مناسب نہیں ہے۔

ڈیموکریٹ سنیٹر نے کہا کہ حکومت نہیں چاہتی کہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح مواصلات پر پابندی عائد ہے اس کو کوئی دیکھے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اگر آپ کو چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے تو پھر ریاست کے دورے کی اجازت کیوں نہیں دی جا سکتی۔

ادھر ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار الزبتھ وارین نے کشمیر میں مواصلات پر پابندی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ انسانی حقوق کا احترام کیا جائے۔

دریں اثنا امریکہ کی سینیٹ کمیٹی برائے خارجہ امور نے اپنی ایک رپورٹ میں کشمیر میں جاری صورت حال کو انسانی بحران قرار دیا ہے اور اسے فوری طور پر دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG