رسائی کے لنکس

میران شاہ دھرنا، پاکستانی فوج کے ترجمان اور محسن داوڑ کی متضاد ٹوئٹس


قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے مطالبات کے حق میں اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا۔ مئی 2018
قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے مطالبات کے حق میں اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا۔ مئی 2018

فاٹا کے ایک قصبے میں جاری احتجاج تو سیکیورٹی حکام اور دھرنے کے قائدین کے درمیان مذاکرات کے بعد ختم ہو گیا لیکن اس کے بعد فوج اور قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ کے درمیان الزامات پر منبی ٹویٹس کا سلسلہ چل نکلا ہے۔

پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنی ایک ٹویٹ میں وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس کی ایک رپورٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ڈیوا سروس پر حقائق سے منافی رپورٹنگ کا الزام عائد کیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنی ٹویٹ میں یہ بھی لکھا کہ اگرچہ فاٹا میں احتجاج کے دوران فائرنگ سے مظاہرین کی ہلاکت پر انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے تاکہ حقائق معلوم کئے جا سکیں مگر فوج کی جانب سے دھرنے کے شرکا کو ایسی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی گئی کہ کسی آرمی افسر کا کورٹ مارشل کیا جائے گا۔

ترجمان پاک فوج نے اپنی ٹویٹ میں اس بات کی بھی ترديد کی کہ احتجاج کرنے والے مظاہرین میں سے کوئی بھی شخص پاک فوج کے اہل کاروں کی گولی کی وجہ سے ہلاک یا زخمی ہوا ہے۔

اس سے پہلے وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس نے اپنے ٹوئیٹر ہینڈل سے ایک ٹویٹ میں یہ رپورٹ کیا تھا کہ ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ نے شمالی وزیرستان میں جاری دھرنا، حکام کی جانب سے اس بات کی یقین دہانی کے بعد ختم کر دیا ہے کہ کیپٹن ضرار، جن پر میران شاہ میں احتجاج کے دوران ایک لڑکے کو گولی مارنے کا الزام ہے، کا کورٹ مارشل کر دیا جائے گا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس ٹویٹ کے بعد محسن داوڑ اور جنرل آصف غفور کے درمیان سخت ٹویٹس کا تبادلہ ہوا۔ محسن داوڑ نے جنرل آصف غفور پر وعدے سے پھر جانے کا الزام عائد کیا۔ محسن داوڑ نے لکھا تھا کہ کیا آپ اپنے وعدے سے پھر جا نے کی روایت کو دہرائیں گے؟ فوج کے ساتھ مذاكرات شروع کرنے کی ہماری یہ واحد شرط تھی کہ فوج کی جانب احتجاج کرنے والے معصوم لوگوں کی ہلاکت پر غلطی کو تسلیم کیا جائے۔ ہم نے مذاكرات ہی تب شروع کئے جب غلطی کو تسلیم کیا گیا۔​

اس موقع پر میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ذاتی ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے محسن داوڑ کی ٹویٹ کا جواب دیا اور لکھا کہ نہ ہی فوج اپنے وعدے سے پھری ہے اور نہ ہی فوج گھما پھرا کر بات کرنے کے عادی ہے۔ قوم اور وزیرستان کے عوام کی خدمت میں کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ سچ چھپایا نہیں جا سکتا اور محسن داوڑ جلد ہی معاندانہ قوتوں کے خلاف حقائق جان لیں گے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ پاک فوج فاٹا میں حاصل کئے گئے امن کو کسی صورت بھی کھونے نہیں دے گی۔

​محسن داوڑ نے اس پر جواب دیتے ہوئے لکھا کہ آئی ڈی پیز اور عوام پر کرفیو نافذ کرنا قطعا پر امن نہیں ہے اور نہ ہی مظاہرین کو ان کا آئینی حق استعمال کرنے پر مار دینا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ آئینی حقوق مانگنا کسی بھی طریقے سے معاندانہ نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سچ تب ہی برآمد ہوگا جب پرتشدد کارروائیوں کی وجوہات کی تفتیش ہو گی۔

اس موقع پر ٹوئیٹر پر صارفین اور تجزیہ نگاروں نے اس تبادلے پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔

عوامی نیشنل پارٹی کی راہنما بشری گوہر نے ترجمان پاک فوج پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ترجمان پاک فوج کی جانب سے یہ کہنا کہ مظاہرین کی اموات کا باعث پاک فوج کا کوئی اہل کار نہیں ہے تفتیش پر اثر انداز ہونے کے مترادف ہے۔ انہوں نے ترجمان سے سوال اٹھایا کہ کیا میران شاہ میں دھرنا دینے والے پر امن مظاہرین غلط بیانی سے کام لے رہے تھے؟ اور آخر کیوں ان سے حکام نے مذاكرات کئے اور ان کے مطالبات منظور کئے تھے؟

انہوں نے اپنی ٹویٹ میں الزام عائد کیا کہ پاکستانی میڈیا کو میران شاہ کے دھرنے پر رپورٹنگ نہ کرنے کی ہدایات تھیں۔ انہوں نے کہا کہ وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس نے ایسے وقت میں میران شاہ دھرنے کی رپورٹنگ کی جب اسے بلیک آؤٹ کرنے کی پاکستانی میڈیا کو ہدایات تھیں۔

تجزیہ نگار محمد تقی نے لکھا کہ فوج کے اعلیٰ عہدے دار کو قومی سلامتی کے امور پر تبصرے کے لئے اپنا ذاتی اکاؤنٹ استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا۔

پیر کے روز اپنی ایک ٹویٹ میں محسن داوڑ نے ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں مظاہرین ایک فوجی چیک پوسٹ پر پتھراؤ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ محسن داوڑ نے یہ دعویٰ کیا کہ میران شاہ میں مظاہرین پر احتجاج کے دوران ہموزانی چیک پوسٹ سے فائرنگ دیکھی جا سکتی ہے۔

تاہم ابھی تک اس ویڈیو پر پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG