رسائی کے لنکس

سفید دھن کو سفید دھن تسلیم کروانے کے لیے ٹیکس دیں


فائل
فائل

کالے دھن کو سفید بنانے کی مہم کئی ملکوں میں چل چکی ہے۔ لیکن پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ اپنے سفید دھن کو سفید تسلیم کروانے کے لیے حکومت کو ٹیکس ادا کریں۔ پاکستان میں رہنے والوں سے زیادہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اس مہم کا نشانہ بن سکتے ہیں۔

عمران خان حکومت کی 15 مئی کو شروع کی گئی ایمنسٹی اسکیم 30 جون کو ختم ہو رہی ہے۔

تمام پاکستانیوں کو اس وقت تک مہلت دی گئی ہے کہ وہ اپنے ظاہر نہ کیے گئے اثاثوں کو اسکیم کے تحت ظاہر کریں اور ان پر چار فیصد ٹیکس ادا کرکے قانونی بنا لیں۔ اگر بعد میں ایسے اثاثے ظاہر ہوئے تو سخت سزا بھگتنا پڑے گی۔

امریکا، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں مقیم بے شمار پاکستانیوں نے بیرون ملک کمائے گیے پیسوں سے پاکستان میں جائیدادیں خریدی ہوئی ہیں۔ وہ اسے وطن سے تعلق برقرار رکھنے کا بہانہ اور مستقبل کی سرمایہ کاری سمجھتے ہیں۔ ایف بی آر کہتا ہے کہ اگر کوئی بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنی پراپرٹی، بینک اکاؤنٹ یا سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیے گئے پیسوں کا ذریعہ بیان نہ کرسکا تو نہ صرف اثاثے منجمد کردیے جائیں گے، بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا بلکہ پانچ سال تک قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ اس خبر سے بیرون ملک مقیم لاکھوں پاکستانیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ماہر معاشیات یوسف نذر کہتے ہیں کہ پاکستان میں عام شخص جب انکم ٹیکس گوشوارہ جمع کراتا ہے تو اسے اپنے اثاثوں کی تفصیل بتانا پڑتی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کراتے۔ انھیں کیسے الزام دیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے اثاثے چھپائے ہیں۔

غیر ملکوں میں ملازمت اور کاروبار کرنے والے پاکستانی ان ملکوں میں ٹیکس ادا کرتے ہیں اور پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے کے پابند نہیں۔ لیکن انھیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ اپنی رقوم بینکوں یا دوسرے قانونی ذرائع سے پاکستان بھیجیں۔

خلیجی اخبار ’گلف نیوز‘ کے مطابق، ایف بی آر کے ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشنل ٹیکسز ڈاکٹر اشفاق احمد نے چند دن پہلے دبئی میں مقیم پاکستانیوں سے ملاقات کی اور انھیں ایمنسٹی اسکیم کے بارے میں آگاہ کیا۔ ڈاکٹر اشفاق احمد کا کہنا تھا کہ 28 ممالک پاکستان کو ان اثاثوں کی تفصیلات دے چکے ہیں جو ان ملکوں میں پاکستانیوں نے بنائے ہیں۔ اس سال مزید 72 ملکوں اور اگلے سال 34 ملکوں کے ساتھ معاہدہ ہوجائے گا۔ اس طرح حکومت کو پاکستانیوں کے تمام بیرون ملک بینک اکاؤنٹس اور اثاثوں کی تفصیلات مل جائیں گی۔ بہتر ہے کہ لوگ ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھالیں۔

تقریب میں موجود کئی افراد نے کہا کہ وہ بہت عرصے سے بیرون ملک مقیم ہیں اور انھوں نے ماضی میں پاکستان بھیجی گئی رقوم کی رسیدیں سنبھال کر نہیں رکھیں۔ ڈاکٹر اشفاق احمد نے انھیں ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے کا مشورہ دیا۔ اس پر وہ افراد ہکابکا رہ گئے اور محنت سے کمائے گئے سفید دھن کو کالے دھن کے طور پر ظاہر کرنے کی تجویز پر غم و غصے کا اظہار کیا۔

وائس آف امریکا نے فیڈرل بیورو آف ریونیو کے چیئرمین شبر زیدی سے سوال کیا کہ بیرون ملک مقیم کوئی پاکستانی اگر منی ٹریل فراہم نہ کرسکا تو کیا ہوگا؟ شبر زیدی نے کہا کہ اس کے تمام اثاثوں کو ایسی آمدنی سے بنایا گیا تصور کیا جائے گا جس پر ٹیکس نہیں دیا گیا۔ ان سے دوسرا سوال کیا گیا کہ کیا بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے یہ مطالبہ ناجائز نہیں، کیونکہ وہ پاکستان میں ٹیکس دینے کے پابند نہیں۔ شبر زیدی نے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔

یوسف نذر کا کہنا ہے کہ شبر زیدی اور حکومت کی معاشی ٹیم میں کئی ایسے ماہرین شامل ہیں جنھیں پاکستان سے باہر کام کا تجربہ نہیں ہے۔ صورتحال کی خرابی کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر تشویش ناک حد تک کم ہو کر صرف 7 ارب 20 کروڑ ڈالر رہ گئے ہیں۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ ان میں 2 ارب 60 کروڑ ڈالر کا سونا شامل ہے۔ اگر سونے کے ذخائر کو خارج کر دیا جائے تو زرمبادلہ ذخائر فقط 4 ارب 60 کروڑ ہیں جو چند ہفتوں سے زیادہ نہیں چل سکتے۔

ملک کی برآمدات کم ہونے اور بیرونی سرمایہ کاری کی شرح منفی ہوجانے کے بعد بیرون ملک پاکستانیوں کی رقوم یعنی ترسیلات قومی معیشت کے لیے بڑا سہارا ہیں۔ کراچی چیمبر کے ممبر شکیل الرحمان کہتے ہیں کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پریشان کرنے سے ترسیلات زر کم ہونے کا خدشہ ہے۔ معیشت کو دستاویزی ہونا چاہیے، اس بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ لیکن، مسئلہ یہ ہے کہ طریقہ کار غلط چنا گیا ہے۔ پہلی جولائی کے بعد آپ دیکھیں گے کہ ایک سونامی آئے گا جو معیشت کو بہا کر لے جائے گا۔

حکومت کی دھمکیوں سے گھبرا کر بیرون ملک پاکستانیوں نے ترسیلات بھیجنا بند کر دیں تو کیا ہوگا؟ تجزیہ کار اس کا جواب دینے کے بجائے مشورہ دیتے ہیں کہ کرکٹ کے بجائے معیشت کے لیے دعا کریں۔

XS
SM
MD
LG