رسائی کے لنکس

پنچایت اور جرگوں کے فیصلے ملکی قوانین اور اسلامی احکامات کی خلاف ورزی قرار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے حال ہی میں دو الگ الگ فیصلوں میں ملک میں پنچایت اور جرگے کی فیصلوں کو قوانین اور اسلامی احکامات کی خلاف وزری قرار دیا ہے۔

پاکستان کے انسانی حقوق کے کارکنوں اور قانونی ماہرین نے ان فیصلوں کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے امکان ظاہر کیا ہے کہ اس سے ملک میں جرگے اور پنچایت کے رواج کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

مقامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ نے حال میں جائیداد سے متعلق جرگے کے فیصلے کو اسلامی احکامات سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سوات میں جائیداد کی وراثت سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ جرگے کا فیصلہ جائیداد سے متعلق اسلامی احکامات کو تبدیل نہیں کر سکتا۔

سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے جائیداد کی تقسیم سے متعلق جرگے کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سوات سے تعلق رکھنے والے متوفی شخص کی جائیداد کو اسلامی احکامات کے تحت تمام قانونی ورثا میں تقسیم کرنے کا حکم دیا۔

دوسری جانب حال ہی میں پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس نور محمد مسکانزئی کی سربراہی می قائم تین رکنی بینچ نے ایک خاتون سیکنہ بی بی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے سوارا اور ونی کی رسم کو اسلامی احکامات کے خلاف قرار دیا ہے۔ خاتون نے درخواست میں ونی کی رسم کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینے کی درخواست کی تھی۔

پاکستان کے کئی علاقوں میں بعض اوقات ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں جن میں جرگے اور پنچایت مقامی رسم رواج کےتحت ایسے فیصلے کرتے ہیں جو ملکی قوانین اور اسلامی احکامات کے خلاف ہوتے ہیں۔ ان میں سوارا یا ونی کی رسم بھی شامل ہے ۔

پاکستان: قبائلی اضلاع عدالتی نظام سے مطمئن کیوں نہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:44 0:00

اس حوالے سے قانون دان ڈاکٹر اسلم خاکی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوارا یا ونی ایک قبائلی رسم ہے۔ ان رسوم میں عام طور پر نابالغ لڑکیوں کو تنازعات خاص طور پر قتل کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے معاوضے کے طور پر مقتول کے خاندان کے حوالے کیا جاتا ہے۔

اسلم خاکی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں ملک کے قوانین کے تحت اس رسم اور جرگوں کے فیصلوں کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ونی کی رسم میں مخالف فریق کو دی جانے والی لڑکی کی اس معاملے میں رضامندی شامل نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ اسے حق مہر سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ جب کہ لڑکی کو کوئی بھی سماجی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسی لڑکی ساری زندگی شادی کے بعد ایک نفرت انگیز ماحول میں زندگی بسر کرتی ہے ۔

اسلم خاکی نے کہا کہ بعض لوگوں میں ملک کے قوانین اور مذہب کے بارے میں شعور نہ ہونے کی وجہ بعض سوارا کی رسم کے تحت لڑکیوں کی شادی کے واقعات ہوتے ہیں۔ اور ایسے واقعات اب بھی رپورٹ ہوتے ہیں۔ البتہ ماضی کی نسبت ایسے واقعات اب کم رونما ہو رہے ہیں۔

انسانی حقوق کے غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی سربراہ حنا جیلانی نے پاکستان کی سپریم کورٹ اور شریعت کورٹ کے فیصلوں کو خوش آئند قرار دیا ہے

حنا جیلانی نے کہا کہ ایسے فیصلوں کی وجہ سے خواتین کے بنیادی حقوق کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں روا رکھے جانے والی رسومات کی حوصلہ شکنی ہو گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں ونی اور سوارا کے رسم کے واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔

حنا جیلانی کے مطابق انتظامی سطح پر مؤثر اقدامات کے ذریعے ایسی فرسودہ رسومات اور جرگوں کے غیر قانونی فیصلوں کو روکا جا سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG