رسائی کے لنکس

'کیا میرا ووٹ اسی پارٹی کے لیے شمار کیا جائے گا جس کے لیے میں نے ڈالا؟'


لاہور کے ایک پولنگ سٹیشن میں ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ فوٹو اے ایف پی
لاہور کے ایک پولنگ سٹیشن میں ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔ فوٹو اے ایف پی

جیل میں بند سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار جمعہ کو پاکستان کے انتخابات میں کامیابی کی طرف بڑھتے ہوئے دکھائی دیے۔ مقامی میڈیا کے مطابق، سرکاری نتائج میں طویل تاخیر نے نتائج میں گڑبڑ کے خدشات کو جنم دیا۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ایک جماعت کے طور پر جمعرات کے انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا، لیکن مقامی ٹی وی چینلز کے غیر سرکاری اعداد و شمار میں آزاد امیدوار سبقت لیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جن میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار سب سے زیادہ حلقوں میں آگے ہیں۔

پہلے دو سرکاری نتائج کا اعلان، جن میں دونوں سیٹیں پی ٹی آئی کے امیدوار جیتنے میں کامیاب ہوئے، پولنگ ختم ہونے کے 11 گھنٹے بعد صبح 4:30 بجے کے فوراً بعد کیا گیا۔

پاکستان کے الیکشن کمشن نے اس سے قبل انتخابی نتائج تاخیر کے لیے "انٹرنیٹ کے مسائل" کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

پاکستانی میڈیا چینلز دن بھر مقامی انتخابی حلقوں کی سطح پر ہونے والی گنتی پر اپنے تخمینے پیش کر رہے تھے۔

پی ٹی آئی کے چیف آرگنائزر عمر ایوب خان نے آدھی رات کے بعد میڈیا کو جاری کردہ ایک ویڈیو بیان میں کہا، "پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار دو تہائی اکثریت کے ساتھ اگلی وفاقی حکومت بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔"

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے سینکڑوں حامی عمران خان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی سڑکوں پر اس خوشی کا جشن منانے کے لیے نکل آئے کیونکہ ان کا دعوی تھا کہ کوئی بھی سرکاری نتائج نہ آنے کے باوجود انہیں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

جمعرات کو ہونے والی ووٹنگ میں پاکستان مسلم لیگ نواز کو سب سے زیادہ نشستیں جیتنے کی توقع ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون کے قائد 74 سالہ نواز شریف کو فوجی قیادت والی اسٹیبلشمنٹ کی آشیرواد حاصل ہے۔

لیکن مقامی ٹی وی چینلز کا کہنا ہے کہ ابتدائی نتائج کے مطابق پارٹی نے بظاہر توقع کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا - نواز شریف اپنے مخالف سے ایک حلقے میں پیچھے دکھائی دے رہے ہیں جہاں سے انہوں نے انتخاب لڑا تھا۔

پاکستان پیپلز پارٹی توقع سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی دکھائی دی ہے، جس کے قائد بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ابتدائی نتائج "بہت حوصلہ افزا" تھے۔

کیا دھاندلی کے خدشات بے جا ہیں؟

پاکستان میں مبصرین نے پیش گوئی کی تھی کہ عمران خان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کی کمزور انتخابی مہم، عدالتی احکامات کے ذریعے پی ٹی آئی کے راستے میں پیدا کی جانے والی رکاوٹیں، جلسوں اور ریلیوں پر پابندی، اور پارٹی رہنماؤں کو ہراساں کیا جانا چند ایسے فیکٹرز تھے، جن کی وجہ سے انتخابات کے دن ووٹر ٹرن آوٹ کم رہ سکتا ہے۔

انتخابات سے قبل ہی دھاندلی کے الزامات نے انتخابی نتائج کے حوالے سے خدشات پیدا کر دیے تھے۔ پاکستان میں موبائل فون نیٹ ورک کو ووٹنگ کے دن بظاہر سیکیورٹی نکتہ نظر سے بندش کا سامنا کرنا پڑا، جس نے نتائج کے بارے میں خدشات کو مزید تقویت پہنچائی۔

پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات روف حسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ پارٹی ایجنٹوں نے 125 حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدواروں کی سبقت کی اطلاع دی ہے۔

انہوں نے الیکشن کمشن ہیڈ کوارٹر سے اعلانات میں تاخیر کے بارے میں کہا، "نتائج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔"

واشنگٹن میں ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سنٹر فار سکالرز میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے اے ایف پی کو بتایا کہ تاخیر سے پتہ چلتا ہے کہ طاقتیں ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس سے وہ انتخابی عمل میں آسانی سے شامل ہو سکیں۔

انہوں نے X پر مزید دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ "ووٹ میں چھیڑ چھاڑ اور دھاندلی کے خدشات عام ہیں، اور ان کی وجوہات ہیں"۔

اس سے قبل، لاکھوں پاکستانیوں نے سخت سردی کے موسم اور عسکریت پسندوں کے حملوں کے خطرے کے باوجود آٹھ فروری کو اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

ایک 39 سالہ تعمیراتی کارکن سید تصور نے کہا، ’’میرا خوف صرف یہ ہے کہ کیا میرا ووٹ اسی پارٹی کے لیے شمار کیا جائے گا جس کے لیے میں نے اسے ڈالا ہے‘‘۔

پہلی بار ووٹ ڈالنے والی 22 سالہ سائیکالوجی کی طالبہ حلیمہ شفیق نے کہا کہ وہ ووٹنگ کی اہمیت پر یقین رکھتی ہیں۔

انہوں نے اسلام آباد میں اے ایف پی کو بتایا، "میں جمہوریت پر یقین رکھتی ہوں۔ میں ایک ایسی حکومت چاہتی ہوں جو پاکستان کو لڑکیوں کے لیے محفوظ بنا سکے۔"

جمعرات کو سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے فوج، نیم فوجی اور پولیس کے 650000 سے زیادہ اہل کار تعینات کیے گئے تھے۔

فوج نے کہا کہ ملک بھر میں الیکشن سے پہلے اور الیکشن کے دن مجموعی طور پر کل 51 حملے ہوئے، جن میں 10 سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت ایک درجن افراد ہلاک ہوئے ۔ یہ تعداد 2018 کے مقابلے میں کم ہے، جب انتخابی مہم کے دوران ملک بھر میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق جمعرات آٹھ فروری کے انتخابات کا ماحول 2018 کے انتخابات جیسا تھا، جب اقتدار مسلم لیگ نواز سے چھن گیا تھا ۔کرپشن کے الزامات کی وجہ سے نواز شریف الیکشن لڑنے کے لیے نااہل ہو گئے تھے، اور عمران خان فوج کی حمایت کے ساتھ ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔

پولنگ گروپ گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بلال گیلانی نے کہا ہے کہ پاکستان کے انتخابات کی تاریخ دھاندلی ہی نہیں جانبداری کے الزامات سے بھی بھری پڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک منظم جمہوریت ہے جسے فوج چلاتی ہے۔

(اس رپورٹ کے لیے معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG