رسائی کے لنکس

ہجرت کرنے والے سیلاب زدگان کو سنبھالنا، کڑا چیلنج


حکومتی عہدیداروں اور امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے ایک کڑا چیلنج سیلاب سے متاثرہ ایسے افراد کو سنبھالنا ہے جو اپنے گھر بار اور مال مویشی سے محروم ہونے کے بعد اب شہروں کو ہجرت کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کی چیئرپرسن سینیٹر نیلوفر بختیار نے کہا کہ بے یارو مددگار سیلاب متاثرین نے جنوبی پنجاب میں شہری علاقوں کا رخ کرنے کے بعد ریلوے کی پٹریوں پر عارضی قیام اختیار کررکھا ہے اور اب تنظیم کی طرف سے انھیں وہیں پر امدادی اشیاء فراہم کی جا رہی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک وقتی ریلیف ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ جتنا جلدی ہو سکے ان افراد کو واپس ان کے علاقوں میں آباد کیا جائے۔

غیر سرکاری تنظیم ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلہری نے ایک انٹرویو میں اس تشویش کا اظہار کیا کہ بڑی تعداد میں متاثرین کا شہروں کی طرف رخ کرنا جہاں شہروں میں پہلے سے ناکافی وسائل پر بوجھ ڈالے گا وہیں اس بات کا خطرہ بھی موجود ہے کہ یہ مجبور افراد سماج دشمن عناصر کے ہاتھوں میں جا کر بدامنی کا سبب بن سکتے ہیں۔

ڈاکٹر سلہری کے مطابق اس موقع پر اقوام متحدہ جو پاکستان میں آنےوالے سیلاب کو بدترین تباہی قرار دے رہا ہے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر متاثرین کو سنبھالنے اور ان کی نو آباد کاری کے لیے قلیل، درمیانے اور طویل مدتی پروگرام تشکیل دینے چاہیئں۔

ادھر پنجاب کے مختلف علاقوں میں سیلاب کا پانی اترنا شروع ہو گیا ہے جس کے بعد امدادی کاموں میں بھی تیزی آ گئی ہے لیکن صوبہ سندھ میں کوٹری کے مقام پر اب بھی اونچے درجے کا سیلاب ہے جبکہ سکھر بیراج پر پانی کی سطح میں کمی واقع ہوئی ہے۔

مزید ممکنہ تباہی سے بچنے کے لیے حیدرآباد کے بند کو مضبوط کیا جا رہا ہے اور اطلاعت کے مطابق ٹھٹھ سمیت مزید شہروں اور دیہاتوں کے زیر آب آنے کے بعد ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ مزید افراد نے اونچے مقامات کی طرف نقل مقانی کی ہے۔

سیلاب سے متاثر ہونے والے تقریبا چھ لاکھ افراد اس وقت سندھ میں ریلیف کیمپوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور حکام کا کہنا ہے کہ آئندہ کچھ روز میں سیلابی پانی کے اترنے کی توقع ہے۔

تباہ کن سیلاب میں بے گھر ہونے والے تقریبا 40 لاکھ سے زائد افراد کو چھت فراہم کرنے اور متاثرین میں وبائی امراض کی وجہ سے ہلاکتوں کی ایک اور ممکنہ لہر کو روکنا اب بھی امدادی اداروں کے لیے ایک کڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔

دریں اثناء حکومت پاکستان نے عالمی ادارہ برائے خوراک یعنی ڈبلیو ایف پی کو یہ اجازت دے دی ہے کہ وہ اپنی فضائی سروس سے پانچ ہیلی کاپٹروں کو سیلاب زدگان کو امداد فراہم کرنے کی سرگرمیوں میں شامل کر لے تاکہ ریلیف کے کاموں کو مزید تیز کیا جا سکے۔

XS
SM
MD
LG