رسائی کے لنکس

پاکستان کو درپیش چیلنجز کا حل معاشی ماہرین کی نظر میں


پاکستان کو درپیش چیلنجز کا حل معاشی ماہرین کی نظر میں
پاکستان کو درپیش چیلنجز کا حل معاشی ماہرین کی نظر میں

پاکستان کو درپیش چیلنجز میں ایک مسئلہ خوراک کی قلت اور اشیائے خورد و نوش کا عام آدمی کی پہنچ سے دور ہونا بھی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور توانائی کے بحران کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کی وجہ خوراک کی پیداوار اور اس کی ترسیل کے نظام میں موجود خرابیاں ہیں اور اگر اس کی روک تھام کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کرسکتا ہے۔

عالمی بینک کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ اندرونی طور پر سیاسی اور سماجی عدم استحکام کے شکار ممالک میں آنے والے برسوں میں غذائی قلت کا مسئلہ سنگین ہوسکتا ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے کی جانے والی ایک حالیہ تحقیق کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ایک برس میں پاکستان میں مقامی طور پر پیدا کی جانے والی غذائی اشیا کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جبکہ غربت میں 2.2 فیصد اضافے کے بعد 39 لاکھ افراد خط غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستان میں خط غربت کا پیمانہ ایک ڈالر فی کس روزانہ ہے۔ جب کہ ڈالر کی قیمت تقریباً 85 روپے کے برابرہے۔

ڈاکٹر زبیر اقبال ایک معاشی تجزیہ کار ہیں اور پاکستان کی موجودہ صورتحال پر گہری نظر رکھتےہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق شاید زیادہ پیچیدہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں خط غربت سے نیچے زندگی گذارنے والوں کے بارے میں ایشیائی ترقیاتی بینک درست نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہاں اس وقت 2.2 کی بجائے 3.5 فیصد آبادی خط غربت کی سطح سے نیچے جاچکی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور شدت پسندی جیسے مسائل کا خوراک کی قلت کے مسئلے سے ایک براہ راست تعلق نظر آتا ہے۔ کیونکہ اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے غریب طبقے میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے جس سے شدت پسندی جیسے مسائل جنم لیتے ہیں جو دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ ہے۔

ڈاکٹر زبیر اقبال ان مسائل کے حل کے لیے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ان کا کہناہے کہ آمدنی کی تقسیم بہتر ہونے سے غربت کم ہوتی ہے اور جب غربت میں کمی آتی ہے تو ملک کے سیاسی نظام میں استحکام آجاتا ہے۔ اور سیاسی استحکام سے دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔

ایک برطانوی تنظیم آکسفیم کے مطابق آئندہ دو عشروں میں خوراک کی قیمتیں تیزی سے بڑھنے کا امکان ہے۔ مختلف اقسام کی فصلوں اور کھانے پینے کی اشیاء کی اوسط قیمتوں میں 2030 تک 120 سے 180 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔

حال ہی میں ورلڈ بینک کے صدر رابرٹ زیولک نے بھی کہا ہے کہ ترقی پزیر ممالک میں خوراک کی قیمتیں تشویشناک حد تک بڑھ رہی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ترقی پزیر ممالک میں مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ خاص طور پر خوراک کی قیمتیں ، جو کہ دنیا کے غریبوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ہم ایک نسل کی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ خوراک کا ایک عالمی بحران ہوگا۔

ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہناہے کہ پاکستان میں ان مسائل پر زراعت کے شعبے پر ٹیکس لگا کر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔ ا نکے مطابق ہمارے یہاں زرعی شعبے میں کوئی ٹیکس نہیں ہے۔جب کہ اس شعبے کی آمدنی مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن اس پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جارہا۔ وہ نہ تو بچت کرتے ہیں اور نہ ہی سرمایہ کاری میں حصہ ڈالتے ہیں۔ صرف اجناس کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں جس سے افراط زر بڑھتا ہے جس کا ملک کو صرف نقصان ہی ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ خوارک کی قلت کی وجہ اسکی پیداوار اور ترسیل کا غیر مستحکم اور غیر محفوظ نظام بھی ہے جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں نمایاں طورپر دکھائی دیتا ہے۔ جس کا نتیجہ لوگوں کی قوت خرید کم ہونے کی شکل میں برآمد ہورہاہے۔

امریکہ میں ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں خوراک کی تیاری اور ترسیل کے نظام میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ خوراک کی قلت اور غیر محفوط فراہمی جیسے مسائل پر قابو پایا جا سکے۔

XS
SM
MD
LG