رسائی کے لنکس

ناروے کے سابق وزیرِ اعظم کا کشمیر کے دونوں حصوں کا دورہ


ناروے کے سابق وزیرِ اعظم کیل مینگے بونڈوک نے اؐمید ظاہر کی ہے کہ بھارت میں اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کے بعد اس کے اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے تصفیہ طلب معاملے پر بات چیت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے پائیدار اور پُرامن حل کے لئے تینوں فریقوں یعنی بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان مکالمے کا ہونا ناگزیر ہے۔

بونڈوک نے جو ناروے کے دو بار وزیرِ اعظم رہ چکے ہیں، اور اوسلو سنٹر برائے امن و انسانی حقوق کے بانی ہیں، حال ہی میں بھارت اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دورے کئے اور نئی دہلی اور اسلام آباد میں اعلیٰ سرکاری عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔ ان کی اس سرگرمی کو دونوں ملکوں کے سیاسی حلقوں میں بڑی اہمیت دی جا رہی ہے، کیونکہ اوسلو سنٹر نے ماضی میں دنیا کے کئی متنازعہ معاملات میں ثالثی کا اہم اور کامیاب کردار ادا کیا ہے۔

تاہم، بونڈوِک نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان اور ان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقوں میں ایک ثالث کی حیثیت سے نہیں گئے، بلکہ انہوں نے یہ دورے صورتِ حال کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے کئے۔

سرینگر میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے قائدین کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ وہ ان کی تمام آرا سے اتفاق نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں ہے بلکہ اسے پُرامن مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ یہ بات چیت بھارت، پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ "کشمیر کے تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ فریقین کو ڈائیلاگ اور ممکنہ مذاکرات کے لئے میز پر آنا ہوگا۔ بھارت میں عام انتخابات کے انعقاد سے پہلے ایسا ہونا دشوار نظر آتا ہے۔ لیکن اُمید ہے یہ اس کے بعد ہوگا"۔

بونڈوِک نے کہا کہ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے ساتھ ان کی ملاقات کا اہتمام بھارت کے ایک 'دھرم گرو' اور 'آرٹ آف لِونگ' کے سربراہ روی شنکر اور ان کے ایک دستِ راست نے کیا تھا اور اس میں بھارت کی وزارتِ خارجہ کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ واضح رہے کہ روی شنکر کو بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے کافی قریب سمجھا جاتا ہے۔

یہ پچھلے چھہ برس میں کسی غیر ملکی شخصیت کی کشمیر کے آزادی پسند لیڈروں کے ساتھ کی جانے والی پہلی ملاقات تھی۔

تاہم، بونڈوک نے کہا کہ اُن کا ان لیڈروں کے ساتھ ملاقات کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اُن کے خیالات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ان لیڈروں نے صورتِ حال کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق پیش کیا۔ میں نے پُر امن طریقے اختیار کرنے پر زور دیا۔"

کشمیر کے تنازعے کو سہ فریقی بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ "میں بھارت کے اپروچ کی عزت کرتا ہوں۔ لیکن ہمیں اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں اور ریاست میں پائی جانے والی انسانی حقوق کی صورتِ حال پر حال ہی میں ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت، پاکستان اور کشمیر کے لیڈروں کے درمیان ایک سہ فریقی بات چیت ہو"۔

جب ان سے کشمیر کے دونوں حصوں کے دورے کے محرکات کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ "کشمیر ایشیا کا سب سے پرانا حل طلب مسئلہ ہے۔ لوگ مارے جارہے ہیں۔ انہیں بڑی تکالیف اٹھانا پڑ رہی ہیں۔ اس صورتِ حال کا خاتمہ ہونا چاہیے"۔

پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں حد بندی لائین پر لے جایا گیا اور یہ ان کے لئے زمینی صورتِ حال کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے مددگار ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا کہ قدغنیں کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان اچھے انسانی اور تجارتی رشتوں کو استوار کرنے میں حائل ہو رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر کا دورہ ان کے بھارت اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر کے دورے کے ساتھ جڑا ہوا تھا کیونکہ وہ کشمیر اور اس پر تنازعے کو بہتر طور پر سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سرینگر میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین سید علی شاہ گیلانی اور میرواعظ محمد عمر فاروق کے ساتھ ملاقات کرنے کے بعد بونڈوِک نئی دہلی میں حکومتی عہدیداروں سے ملے تھے۔ انہوں نے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ مظفر آباد اور اسلام آباد میں جاری رکھا۔ اسلام آباد میں وہ جن اہم شخصیات سے ملے اُن میں پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی بھی شامل ہیں۔

بونڈوِک سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے میر واعظ عمر فاروق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ"ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ناروے کے سابق وزیرِ اعظم کا یہاں آنا اور پھر نئی دہلی اور اسلام آباد میں ملاقاتیں کرنا اور آزاد کشمیر جانا خود ایک بڑی بات ہے۔ ہم نے ان کے ساتھ تفصیل کے ساتھ بات کی۔ ظاہر ہے کہ وہ ہماری ہر بات سے اتفاق نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن، انہوں نے اصولی طور پر یہ بات تسلیم کرلی کہ کشمیر کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور نہ اسے طاقت کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے"۔

میر واعظ نے مزید کہا کہ "سب سے اہم بات جو انہوں نے کہی وہ یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کو کشمیریوں کو اعتماد میں لیکر سہ فریقی بنیادوں پر آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ ایک آگے بڑھنے والی بات ہے۔ اوسلو سنٹر نے بہت سے تنازعات میں چاہے وہ سری لنکا کا مسئلہ ہو یا افریقہ کے مسائل ہوں قابلِ ذکر کام کیا ہے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر ان ہی بنیادوں پر کشمیر پر بھی کوئی پہل کی جاتی ہے اور بین الاقوامی مداخلت یا مدد سے اسے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ دونوں ملکوں کے ساتھ ساتھ اس پورے خطے کے عوام کے بہتر مفاد میں ہوگا"۔

میر واعظ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان ماضی میں دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے کشمیر کے مسئلےکو حل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ لہٰذا، اس پر بین الاقوامی مداخلت، ثالثی یا مدد ناگزیر ہے۔ "ہم نے ناروے کے سابق وزیرِ اعظم سے یہی بات کہی۔ ہم نے اُن سے یہ بھی کہا کہ اگر وہ یا اوسلو سنٹر اس سلسلے میں کوئی پہل کرتا ہے تو یہ ایک اچھا قدم ہوگا جس کا ہم خیر مقدم کرینگے۔"

میر واعظ نے اس بات پر زور دیا کہ کشمیری عوام کو مذاکرات میں شامل کئے بنا کشمیر کے پائیدار حل کو تلاش کرنا ناممکن ہے۔ لہٰذا، بھارت اور پاکستان کو ایسا طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا، جس سے کشمیری عوام کے نمائندوں کا بات چیت میں شامل ہونا یقینی بن جائے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG