رسائی کے لنکس

امریکہ کے سابق صدر جارج ایچ ڈبلیو بش انتقال کرگئے


بیس جنوری 1989ء کو لی گئی تصویر جس میں جارج ایچ ڈبلیو بش امریکہ کے 41 ویں صدر کا حلف اٹھا رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ باربرا بش بھی موجود ہیں۔ (فائل فوٹو)
بیس جنوری 1989ء کو لی گئی تصویر جس میں جارج ایچ ڈبلیو بش امریکہ کے 41 ویں صدر کا حلف اٹھا رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ باربرا بش بھی موجود ہیں۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے 41 ویں صدر جارج ہربرٹ واکر بش انتقال کرگئے ہیں۔ ان کی عمر 94 برس تھی۔

سابق صدر کی وفات کا اعلان ان کے دیرینہ ترجمان جِم مک گرتھ نے جمعے کی شب ایک مختصر بیان میں کیا۔ بیان کے مطابق آخری رسومات کی تاریخ اور مقام کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

جارج ایچ ڈبلیو بش 1989ء سے 1993ء تک امریکہ کے صدر رہے تھے لیکن ان کا سیاسی اور پبلک سروس کیریئر 40 برسوں پر محیط تھا۔

وہ امریکہ کے 43 ویں صدر جارج ڈبلیو بش کے والد تھے جو دو مدت کے لیے 2000ء سے 2009ء تک صدر رہے۔

لیکن جارج بش سینئر صرف چار سال ہی صدر رہے تھے۔ وہ 1988ء میں صدر بنے تھے لیکن 1992ء میں خراب معاشی حالات اور بے روزگاری کی شرح میں اضافے کے باعث دوسری مدتِ صدارت کا انتخاب ہار گئے تھے۔

صدر بننے سے قبل وہ 1981ء سے 1989ء تک آٹھ سال صدر رونلڈ ریگن کے ساتھ نائب صدر بھی رہے تھے۔

طویل سیاسی کیریئر

صدر بش کا آبائی تعلق شمالی ریاست کنیٹی کٹ سے تھا۔ وہ بعد میں ٹیکساس منتقل ہوگئے تھے جہاں انہوں نے ایک آئل کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔

بش سینئر کے والد پریسکاٹ بش 1952ء سے 1963ء تک کنیٹی کٹ سے سینیٹر بھی رہے تھے۔

جارج بش سینئر 18 سال کی عمر میں امریکی نیوی میں بھرتی ہوگئے تھے اور انہوں نے جنگِ عظیم دوم میں بطور نیوی پائلٹ حصہ لیا تھا۔

بعد ازاں انہوں نے سیاست میں قدم رکھا لیکن ابتدائی انتخابات میں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ وہ 1964ء میں ٹیکساس سے سینیٹ کا انتخاب ہار گئے تھے لیکن 1966ء میں وہ ٹیکساس سے ہی ایوانِ نمائندگان کے رکن منتخب ہونے میں کامیاب رہے تھے۔

انہوں نے 1970ء میں ایک بار پھر سینیٹ کا انتخاب لڑا تھا جس میں انہیں دوبارہ ناکامی کا منہ دیکھا پڑا تھا۔ لیکن اس الیکشن میں ناکامی ان کے سیاسی کیریئر کے لیے انتہائی اہم ثابت ہوئی تھی جس کے بعد وہ 1970ء کی پوری دہائی میں کئی اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے۔

اس عرصے کے دوران وہ ری پبلکن صدور کے انتہائی قریب اور قابلِ اعتماد مشیر رہے۔

بش سینئر صدر رچرڈ نکسن کے دور میں اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر رہے جس کے کچھ عرصے بعد انہوں نے ری پبلکن نیشنل کمیٹی کے چیئرمین کے فرائض بھی انجام دیے۔

بعد ازاں صدر جیرالڈ فورڈ نے انہیں چین میں امریکہ کے سفارتی مشن کا سربراہ مقرر کیا۔ سنہ 1976ء میں صدر فورڈ نے بش کو سی آئی اے کا ڈائریکٹر مقرر کیا تھا اور انہوں نے ایک سال تک یہ ذمہ داری انجام دی۔

قصرِ صدارت میں

بش سینئر نے 1980ء کے صدارتی انتخاب میں ری پبلکن پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ٹکٹ کیلی فورنیا کے گورنر رونلڈ ریگن کو مل گیا تھا۔

بش سینئر اپنے بیٹے جارج ڈبلیو بش کے ہمراہ
بش سینئر اپنے بیٹے جارج ڈبلیو بش کے ہمراہ

بعد ازاں ریگن نے جارج ایچ ڈبلیو بش کو اپنا نائب صدر کا امیدوار مقرر کیا تھا اور دونوں نے اگلے آٹھ سال تک امریکہ پر حکمرانی کی۔

سنہ 1988ء میں جارج بش سینئر نے ایک بار پھر صدارتی الیکشن میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا تھا اور ری پبلکن پارٹی کے ٹکٹ پر میساچوسٹس کے گورنر اور ڈیموکریٹ امیدوار مائیکل ڈکاکس کو شکست دے کر امریکہ کے 41 ویں صدر منتخب ہوگئے تھے۔

ان کے دورِ صدارت کے آغاز میں ہی دیوارِ برلن کے منہدم ہونے اور سوویت یونین کے زوال کے تاریخی واقعات رونما ہوئے تھے۔

اپنے دورِ صدارت کے دوران صدر بش کے حکم پر امریکی فوج نے وسطی امریکی ریاست پاناما پر حملہ کرکے ملک کے فوجی حکمران مینوئل نوریگا کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔

جنگِ خلیج

بعد ازاں 1990ء میں عراق کے فوجی صدر صدام حسین کی جانب سے کویت پر قبضے کے خلاف بھی صدر بش کے حکم پر امریکی فوج حرکت میں آئی تھی اور کویت کو عراقی فوج سے آزاد کرالیا تھا۔

بش سینئر اور باربرا بش سابق صدر بل کلنٹن کے ہمراہ۔ بش سینئر 1992ء کو صدارتی الیکشن بِل کلنٹن سے ہار گئے تھے لیکن بعد ازاں دونوں اچھے دوست بن گئے تھے اور ایک دوسرے سے تواتر سے ملتے تھے۔
بش سینئر اور باربرا بش سابق صدر بل کلنٹن کے ہمراہ۔ بش سینئر 1992ء کو صدارتی الیکشن بِل کلنٹن سے ہار گئے تھے لیکن بعد ازاں دونوں اچھے دوست بن گئے تھے اور ایک دوسرے سے تواتر سے ملتے تھے۔

اس کارروائی کے بعد صدر بش کی امریکہ کے عوام میں مقبولیت 89 فی صد کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی تھی۔

لیکن کچھ سال گزرنے کے بعد عراق سے متعلق بش سینئر کی حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جانے لگا تھا کیوں کہ انہوں نے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش نہیں کی تھی اور اپنے فوجی مشن کو صرف عراقی فوجوں کو کویت سے باہر دھکیلنے پر ہی مرکوز رکھا تھا۔

صدر کے منصب سے فراغت کے بعد اپنے ایک انٹرویو میں بش سینئر نے عراق سے متعلق اپنی حکمتِ عملی کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی تجویز اس لیے رد کردی تھی کیوں کہ اس کی بھاری انسانی اور سیاسی قیمت ادا کرنا پڑتی۔

ان کے بقول اگر عراق حکومت ہٹائی جاتی تو امریکی فوج کو بغداد پر قبضہ کرنا پڑتا اور لامحالہ امریکہ کو عراق پر حکمرانی کرنا پڑ جاتی جو وہ نہیں چاہتے تھے۔

صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کامشن بعد ازاں بش سینئر کے بیٹے اور 43 ویں صدر جارج ڈبلیو بش نے 2003ء میں انجام دیا۔ لیکن اس کے وہی نتائج برآمد ہوئے جن کی پیش گوئی بش سینئر نے کی تھی۔

بش سینئر اپنی اہلیہ باربرا بش کی آخری رسومات میں شریک ہیں۔ سابق خاتونِ اول رواں سال اپریل میں انتقال کر گئی تھیں۔
بش سینئر اپنی اہلیہ باربرا بش کی آخری رسومات میں شریک ہیں۔ سابق خاتونِ اول رواں سال اپریل میں انتقال کر گئی تھیں۔

دوسرے صدارتی انتخاب میں شکست

عراق جنگ کے بعد مقبولیت کی انتہاؤں کو چھونے کے باوجود بش سینئر ابتر داخلی معاشی صورتِ حال کے باعث 1992ء کا صدارتی انتخاب ڈیموکریٹ حریف اور ریاست آرکنسا کے گورنر بِل کلنٹن سے ہار گئے تھے۔

صدر کے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن کو اپنی رہائش کے لیے منتخب کیا تھا جہاں وہ تواتر سے عوامی تقریبات میں شریک ہوتے تھے۔

صدر بش سینئر کی اہلیہ باربرا بش کا انتقال سات ماہ قبل 92 سال کی عمر میں ہوا تھا جس کے بعد بش سینئر کو بھی علالت کے باعث اسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔ دونوں کی رفاقت 73 سال پر محیط تھی اور ان کی شادی کسی بھی امریکی صدارتی جوڑے کی طویل ترین رفاقت ہے۔

جارج بش سینئر کو سب سے طویل عمر پانے والے سابق امریکی صدر کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اب تک امریکہ کا کوئی صدر 94 سال کی عمر تک نہیں پہنچ پایا۔

جارج بش سینئر کے دوسرے بیٹے جیب بش فلوریڈا کے گورنر رہ چکے ہیں جنہوں نے 2016ء کے صدارتی انتخاب کے لیے ری پبلکن پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کی بھی کوشش کی تھی جس میں وہ ناکام رہے تھے۔

XS
SM
MD
LG