رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں ایک اور جھڑپ، میجر سمیت نو افراد ہلاک


بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پُلوامہ میں پیر کو ہوئی ایک جھڑپ میں بھارتی فوج کا ایک میجر، تین دوسرے سپاہی، ایک پولیس اہلکار، تین مشتبہ عسکریت پسند اور ایک شہری ہلاک اور فوج کے ایک بریگیڈئر اور ایک لیفٹننٹ کرنل سمیت چار فوجی اور ایک اعلیٰ پولیس افسر زخمی ہو گئے۔

سرینگر میں بھارتی فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیہ نے ہلاک ہونے والے فوجیوں کی شناخت میجر وی ایس دونڈیال، حولدار شیورام، سپاہی اجے کمار اور سپاہی ہری سنگھ کے طور پر کی۔ مقامی ذرائع کے مطابق حفاظتی دستوں نے علاقے کے چند نجی گھروں میں آگ لگادی کیونکہ عسکریت پسند اپنی پوزیشنیں بار بار تبدیل کررہے تھے۔ لڑائی پیر کی صبح پلوامہ کے پنگلنہ علاقے میں ایک نجی گھر میں موجود عسکریت پسندوں کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لئے بھارتی فوج اور دوسرے حفاظتی دستوں کی طرف سے شروع کئے گئے ایک آپریشن کے دوران بھڑک اُٹھی۔

اگرچہ پولیس اور فوج دونوں کا کہنا ہے کہ مارے گئے عسکریت پسندوں کی شناخت کی جارہی ہے بھارت کے بعض نجی ٹیلی ویژن چینلوں نے یہ خبر دی ہے کہ ان میں کالعدم عسکری تنظیم جیشِ محمد کے لیڈر مولانا مسعود اظہر کا ایک دست راست کامران اور افغانستان سے تعلق رکھنے والا دیسی ساخت کے بم بنانے کا ماہر غازی رشید بھی شامل ہیں۔ جھڑپ میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار کی شناخت ہیڈ کانسٹیبل عبد الرشید اور شہری کی مشتاق احمد بٹ کے طور پر کی گئی ہے۔

یہ جھڑپ ضلع پُلوامہ ہی کے لیتہ پورہ علاقے میں کئے گئے ایک خود کش حملے کے چند روز بعد پیش آئی ہے۔ جمعرات کو بھارتی وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کے ایک کانوائے پر کئے گئے اس خود کُش حملے میں تقریبا" پچاس اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ خود کش حملےکی ذمہ داری جیشِ محمد نے قبول کی تھی۔ اس میں ہوئے بھاری جانی نقصان پر پورے بھارت میں شدید غم غصہ ہے ۔ واقعے کی امریکہ سمیت مختلف ممامک نے مذمت کی ہے۔ نیز اس واقعے کے نتیجے میں بھارت پاکستان تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا ہے کیونکہ بھارت نے یہ کہکر کہ جیشِ محمد کی قیادت کو جس میں مولانا مسعود اظہر بھی شامل ہیں پاکستان میں بلا کسی رکاوٹ کے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت ہے، پاکستان کو اس واقعے کے لئے براہِ راست ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اسلام آباد نے الزام کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے۔

پنگلنہ میں جھڑپ کے دوران ہی مقامی لوگوں نے جن میں نوجوان اکژیت میں تھے سڑکوں پر آکر بھارت مخالف مظاہرے کئے۔ عینی شاہدین کے مطابق، پولیس اور نیم فوجی دستوں نے مظاہرین اور پتھراؤ کرنے والے ہجوموں کے خلاف طاقت استعمال کی۔ مظاہرے اور تشدد آخری اطلاع آنے تک جاری تھے۔

اس دوران انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خود کُش حملے کے بعد بھارت کے مختلف حصوں میں ہندو قوم پرست گروپس کی طرف سے کشمیر ی تاجروں اور طالبعلموں پر کئے جارہے حملوں یا انہیں ہراساں کرنے کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

تنظیم نے حکومتِ بھارت اور بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی گورنر انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ لیتہ پورہ میں ہوئے خود کُش حملے کے بعد عام کشمیری خواتین اور مردوں پر دانستہ حملے نہ کئے جائیں اور نہ انہیں ہراساں یا گرفتار کیا جائے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے پیر کو جاری کئے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اطلاعات یہ ہیں کہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے طالبعلموں اور تاجروں کی شمالی بھارت کی ریاستوں جن میں خاص طور پر اترا کھنڈ، ہریانہ اور بہار شامل ہیں قوم پرست ھندو گروپس کی طرف سے مار پیٹ کی گئی ہے، انہیں دھمکیاں دی گئیں یا خوف زدہ کیا گیا۔ کئی طالبعلم خوف زدہ ہو کر یونیورسٹیاں چھوڑ چکے ہیں۔ دہرہ دون کے دو اور مراد آباد کے ایک کالج کی انتظامیہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ نئے کشمیری طالبعلموں کو داخلہ نہیں دیں گی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے عہدیدار آکار پٹیل نے کہا۔"ہم ایک خطرناک مرحلے پر ہیں اور حکام کو قانون کی حکمرانی برقرار رکھنے کے لئے ہر قدم اٹھاناچاہیے۔ عام کشمیریوں کو جو بھارت کے مختلف حصوں میں محض اپنی زندگیاں بہتر بنانے کی غرض سے مقیم ہیں صرف اس لئے چُن چُن کر تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہئیے کہ وہ ایک خاص علاقے سے تعلق رکھتے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا ۔"بلوائی جو کشمیریوں کو ان کے گھروں، ہوسٹلوں اور دکانوں سے نکال باہر کرنے کے لئے حب الوطنی کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اصل میں آئینِ ہند کے بنیادی اقدار کو زنگ آلودہ کر رہے ہیں۔ حکام کو دھمکیوں اور تشدد کے تمام الزامات کی تحقیقات کرنی چاہیے اور ذمہ دار افراد کو انصاف کی کٹہرے میں لانا چاہیے"۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی وزارتِ داخلہ نے ریاستی حکومتوں سے یہ کہکر اچھا قدم اُٹھایا ہے کہ تمام کشمیریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے ۔ انہوں نے اس بات پر ایک مرتبہ پھر زور دیا "حکام اس بات کو یقینی بنائیں کہ صورتِ حال مزید خراب نہ ہو"

اس دوراں جموں اور بھارت کے مختلف حصوں میں کشمیری تاجروں اور طالبعلموں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے خلاف پیر کو سرینگر اور وادئ کشمیر کے چند دوسرے علاقوں میں لوگوں نے ایک مرتبہ پھر احتجاجی مظاہرے کئے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG