رسائی کے لنکس

تائیوان کی کمپنی الگ؛ کیا بھارت میں چِپ بنانے کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے؟


تائیوان کی کمپنی فاکس کون نے بھارت کی کمپنی ویدانتا کے ساتھ 19.5 ارب ڈالر پر مشتمل سیمی کنڈکٹر مشترکہ منصوبے سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ اس فیصلے کو وزیر اعظم نریندر مودی کے بھارت میں چِپ بنانے کے عزائم کے لیے ایک دھچکہ تصور کیا جا رہا ہے۔

تاہم ا س نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ وہ بھارت کی جانب سے سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ کی ترمیم شدہ پالیسی کے تحت پیش کیے گئے انسینٹیو کے لیے درخواست دینے کی تیاری کر رہی ہے۔

بھارت نے سیمی کنڈکٹر اور مینوفیکچرنگ منصوبے کے لیے کیپٹل لاگت کی 50 فی صد پر 10 ارب ڈالر کی مالی امداد کی ترمیم شدہ پیش کش کی ہے۔

فاکس کون الیکٹرانک آلات بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ اس نے گزشتہ سال 13 ستمبر کو ویدانتا کے ساتھ مشترکہ منصوبے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ یہ منصوبہ گجرات میں شروع کیا جانے والا تھا۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے اس معاہدے کو چپ بنانے کے بھارت کے عزائم کو فروغ دینے میں ایک اہم قدم قرار دیا تھا۔

فاکس کون ویدانتا مشترکہ منصوبہ ان تین تجاویز میں سے ایک تھا جو گزشتہ سال بھارت کو 10 ارب ڈالرز انسینٹیو اسکیم (امداد اسکیم) کے تحت موصول ہوئی تھیں۔ یہ اسکیم بھارت میں الیکٹرانکس اور سیمی کنڈکٹر کے شعبے کو فروغ دینے کے لیے متعارف کرائی گئی ہے۔ دنیا میں سیمی کنڈکٹر کی زبردست طلب ہے جب کہ اس کی سپلائی بہت کم ہے۔

فاکس کون نے ویدانتا کے ساتھ مشترکہ منصوبے کو چھوڑنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فریقین کا احساس تھا کہ یہ منصوبہ تیزی سے آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر چیلنجز بھی تھے جن پر ہم آسانی سے قابو پانے کے اہل نہیں تھے۔


اگر چہ کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ منصوبے سے الگ ہونے کی کوئی منفی وجہ نہیں ہے لیکن باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ فاکس کون کی جانب سے انسنٹیو درخواست کے ساتھ جو لاگت تخمینہ پیش کیا گیا تھا اس پر حکومت کی جانب سے کئی سوالات اٹھائے گئے تھے۔

مبصرین کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی الیکٹرانک مینوفیکچرنگ کے شعبے میں ’نئے دور‘ کو فروغ دینے کے لیے چپ سازی کو بھارتی معیشت کے لیے ترجیحی حیثیت دے رہے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فاکس کون کا فیصلہ بھارت کے ’میک ان انڈیا‘ پروگرام کے لیے اچھی خبر نہیں ہے۔ اس سے ویدانتا کی بہتر کارکردگی کی عکاسی نہیں ہوتی۔ اب دوسری کمپنیوں کے لیے بھی شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔

'یہ افسوس ناک ہے'

عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ذاکر حسین کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں سیمی کنڈکٹر کی تقریباً 172 کمپنیاں ہیں جن میں بھارت کی ایک بھی نہیں ہے جب کہ بھارت سیمی کنڈکٹر کا بہت بڑا صارف ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے انسینٹیو پالیسی کے اعلان کے بعد بڑی تیزی سے مشترکہ منصوبوں پر دستخط ہو رہے ہیں اور فاکس کون اور ویدانتا کا مشترکہ منصوبہ کافی بڑا تھا۔ لیکن اس کا خاتمہ افسوس ناک ہے۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے بھارت کی قومی سیمی کنڈکٹر پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بھار ت کا ہدف اس شعبے میں خود کفیل ہونا ہے۔ ان کے مطابق اب بھارت کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے تاکہ ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو سکے۔

ایک اقتصادی تھنک ٹینک ’سینٹر فار بجٹ اینڈ گورنینس اکاؤنٹیبلٹی‘ (سی بی جی اے) سے وابستہ جاوید عالم خان کہتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دے رہی ہے اور یہ کہ یہ فیصلہ بھارت کے لیے دھچکہ نہیں ہے۔ لیکن ان کے خیال میں فاکس کون کا منصوبے سے الگ ہو جانا حکومت کی بھی ناکامی ہے اور ویدانتا کی بھی ہے۔


ان کے خیال میں بھارت کے لیے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو فروغ دینا بہت ضروری ہے کیوں کہ اس کے بغیر روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوں گے۔

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ فاکس کون کا فیصلہ یہ دکھاتا ہے کہ بھارتی حکومت کی اندرونی پالیسی کچھ اور ہے اور عالمی سطح پر جو دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ کچھ اور ہے۔

مبصرین کے مطابق حکومت چپ سازی کے سیکٹر میں جو کوشش کر رہی ہے وہ چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی کی وجہ سے بھی متاثر ہو رہی ہے۔ کیوں کہ چین اس سیکٹر کے لیے خام مواد کا بہت بڑا سپلائر ہے۔ لیکن بھارت نے متعدد چینی ایپس پر پابندی لگا دی ہے اور چین سے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے رکاؤٹیں کھڑی کی ہیں۔

ڈاکٹر ذاکر حسین کے خیال میں فاکس کون کے فیصلے کو خطے کی جیو پولیٹیکل صورتِ حال کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق تائیوان امریکہ پر منحصر ہے اور امریکہ کسی پالیسی کے بارے میں اس سے کہے گا تو وہ ٹال نہیں سکتا۔

وہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ امریکہ نے کہا ہو کہ بھار ت کو انڈو پیسفک میں مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہونا ہے اور اس لیے اس سے سخت شرائط پر بات کی جائے۔ ان کے خیال میں ممکن ہے کہ تائیوان کی کمپنی نے امریکہ کے اشارے پر معاہدے سے خود کو الگ کیا ہو۔

ان کے خیال میں اگر آنے والے دنوں میں ایسا کوئی اور فیصلہ دیکھنے کو ملتا ہے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ حکمت عملی کے تحت اٹھایا جانے والا قدم ہے اوراس کا مقصد چین مخالف محاذ پر بھارت کو لاکر کھڑا کرنا ہے۔

حکومت نے فاکس کون کے اس فیصلے کو اندرون ملک سیمی کنڈکٹر بنانے کے بھارت کے عزائم کے لیے دھچکہ ماننے سے انکار کیا ہے۔ اسے امید ہے کہ چپ ساز کمپنیاں بھارت میں سرمایہ کاری کریں گی۔

الیکٹرانک اور ٹیکنالوجی کے وزیر مملکت راجیو چندر شیکھر نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ اس سے بھارت کے سیمی کنڈکٹر فیبری کیشن اہداف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

انھوں نے کہا کہ یہ دیکھنا حکومت کا کام نہیں ہے کہ دو نجی کمپنیوں نے کسی مشترکہ منصوبے پر مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا یا نہیں کیا۔ تاہم ان کے خیال میں جو لوگ فاکس کون کے فیصلے کو بھارت کے سیمی کنڈکٹر عزائم کے لیے دھچکہ بتا رہے ہیں وہ غلط ہیں۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے گزشتہ ماہ امریکی دورے کے موقع پر بھارت اور امریکہ کے درمیان سیمی کنڈکٹرز کی مینوفیکچرنگ کا معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت 2.75 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے بھارت میں سیمی کنڈکٹرز کو اسمبل اور ٹیسٹ کرنے کے لیے تنصیبات لگائی جائیں گی۔

امریکی کمپنی مائیکرون نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ بھارت میں چپ ٹیسٹنگ اور پیکجنگ کے لیے 825 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ بھارت کی مرکزی اور گجرات کی ریاستی حکومت کے تعاون سے مجموعی سرمایہ کاری 2.75 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔

بھارت کے ساتھ شراکت داری کے تحت امریکی کمپنیاں ایک ایسا سیمی کنڈکٹر ایکو سسٹم بنا رہی ہیں جس کے ذریعے سیمی کنڈکٹرز کی بڑے پیمانے پر سپلائی یقینی بنائی جائے گی۔

امریکی کمپنی اپلائیڈ میٹیریل نے بھارت میں تجارتی مقصد کے لیے ایک سیمی کنڈکٹر سینٹر بھی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جہاں 60 ہزار بھارتی انجینئروں کو تربیت دی جائے گی تاکہ وہ ملک کے اندر سیمی کنڈکٹر ورک فورس کو تیزی سے تیار کر سکیں۔

ماہرین کے مطابق بھار ت میں سیمی کنڈکٹر مارکیٹ کو حالیہ برسوں میں کافی فروغ حاصل ہوا ہے۔ الیکٹرانک آلات کی بڑھتی ہوئی طلب، آمدن میں اضافے، انٹرنیٹ صارفیت میں بڑھوتری اور گھریلو مصنوعات کو فروغ دینے کی حکومت کی کوششوں کے سبب بھارت تیزی سے سیمی کنڈکٹر کے عالمی مارکیٹ کے اہم کردار طور پر ابھرا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG