رسائی کے لنکس

فرانسیسی مصنوعات پر محصول عائد کیا گیا تو یورپ جوابی کارروائی کرے گا


فرانس کے وزیر معیشت، لمائر صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے۔
فرانس کے وزیر معیشت، لمائر صحافیوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے۔

فرانس نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکی انتظامیہ نے فرانسیسی پنیر، شیمپین، ہینڈ بیگز اور دوسری مصنوعات پر 100 فی صد محصولات عائد کرنے کی تجویز پر عمل درآمد کیا تو یورپ جوابی کارروائی کرے گا۔

محکمہ تجارت کے امریکی نمائندے نے تجویز پیش کی ہے کہ اگر فرانس نے عالمی ٹیکنالوجی کے سرکردہ اداروں، جن میں گوگل، امیزون اور فیس بک شامل ہیں، سے ٹیکس وصول کرنا شروع کیا تو امریکہ پیر سے 2.4 ارب ڈالر مالیت کا محصول متعارف کرائے گا۔

صدر ٹرمپ نے منگل کو کہا کہ ’’میں ان کمپنیوں کا گرویدہ نہیں لیکن یہ ہمارے ادارے ہیں۔‘‘ انھوں نے یہ بیان ایسے وقت دیا ہے جب لندن میں ان کی فرانسیسی صدر امانوئیل میکخواں کے ساتھ ملاقات طے ہے، جس کے لیے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تلخ نوعیت اختیار کر سکتی ہے۔
تجارت کے بارے میں اس مجوزہ اقدام کے نتیجے میں امریکہ اور یورپ کے درمیان تجارتی تناؤ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ اس بارے میں یورپی یونین کی پالیسی کو ’’واضح شکل اختیار کرنی چاہئیے ورنہ معاملات انتہائی کشیدہ ہوجائیں گے۔‘‘

فرانسیسی وزیر مالیات برونو لمائر نے کہا ہے کہ امریکہ کی جانب سے محصول عائد کرنا ’’ہر صورت میں ناقابل قبول ہے۔ اپنے کلیدی اتحادیوں کے ساتھ امریکہ کو ایسا رویہ نہیں برتنا چاہئے۔‘‘

لمائر نے کہا کہ فرانس کی جانب سے ٹیکس لگانے کا مقصد ’’ٹیکس کے معاملے پر انصاف قائم کرنا ہے۔‘‘ فرانس چاہتا ہے کہ ڈیجیٹل کمپنیاں ان ملکوں کو ٹیکس کا حصہ ادا کریں جہاں وہ اپنی مصنوعات فروخت کرتی ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے میں بین الاقوامی سمجھوتہ طے کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ ’’اگر دنیا چاہتی ہے کہ اکیسویں صدی میں ٹیکس کی مد میں ٹھوس آمدنی ہو تو ہمیں یہ اختیار ہونا چاہیے کہ ڈیجیٹل صنعت پر ٹیکس لگاسکیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ فرانسیسی ٹیکس کسی ملک یا کسی ادارے کے خلاف نہیں لگائے جارہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر امریکہ بین الاقوامی ٹیکس کے منصوبے پر رضامند ہوتا ہے تو فرانس اسے ٹیکس کی رقم واپس کردے گا۔

یورپی کمیشن کے ترجمان ڈینئل روساریو نے کہا ہے کہ یورپی یونین کی یہ کوشش ہوگی کہ ’’معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو، جس کے لیے امریکہ کے ساتھ فوری بات چیت کے خواہاں ہیں۔‘‘

XS
SM
MD
LG