دنیا کی بیس اہم ترین معاشی قوتوں کےراہنما اس ہفتے اور اتوار کے دن جی ٹونٹی کانفرنس کے لیے کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں جمع ہورہے ہیں۔ اس کانفرنس میں عالمی معیشت کو پھر سے مضبوط بنانے کے طریقوں پر غور کیا جائےگا اور توقع ہے کہ رکن ممالک کے راہنما اور مالیاتی ماہرین، کرنسی، تجارت اور خسارے جیسے موضوعات پر گفت وشنید کےساتھ ساتھ یورپ کے مالی بحران ، مالیاتی اداروں کے لیے بہتر قوانین، بینکوں پر ٹیکس اور دیگر مالیاتی مسائل کو بھی زیر بحث لائیں گے۔
ٹورانٹو میں اکھٹے ہونےوالے راہنماؤں کا تعلق ایسے ممالک سے ہے جس کا عالمی معیشت میں 90% اور دنیا بھر کی تجارت میں 80% حصہ ہے ۔ دنیا بھر کی دو تہائی آبادی انہی کے ملکوں میں رہتی ہے۔ عالمی مالیاتی بحران نے مالیاتی اداروں کے لیے بہتر قوانین بنانے کی ضرورت کی اہمیت بڑھا دی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ کیسے کیا جائے؟
کچھ وزرائے خزانہ بینکوں سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے سرمائے کا کم حصہ قرض کے لیے دیں تاکہ کسی نقصان کی صورت میں زیادہ رقم ان کے پاس ہو۔
دیگر مشوروں میں مالیاتی اداروں کو کسی بحران سے نمٹنے کے لیے ادھار دی جانے والی رقم کو مخصوص کرنے کی بات کی جائے گی تاکہ اس طرح کی صورت حال میں معیشت کو مزید نقصان نہ پہنچے۔
مالیاتی اداروں کے قوانین کے ایک ماہر سباسٹیان ملابے کہتے ہیں کہ G-20 کے مختلف ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ مالیاتی اداروں کو چلانے کے لیے مل کر کام کریں۔
ملابے کا تعلق کونسل آن فارن ریلیشنز سے ہے۔وہ کہتے ہیں کہ عالمی تعاون شاید اس وقت ختم ہوجائے، جب تجارت دوبارہ مستحکم ہو اور دنیا 2008ء کے مالی بحران سے باہر نکلنا شروع ہو۔
ایک اور بحران یونان میں شروع ہوا ہے جس کی وجہ ملک کے قرضوں کا بڑھنا ہے اور مالیاتی اداروں کو یہ اندیشہ ہے کہ ان قرضوں کی شاید ہی واپسی ہوسکے۔ وہاں خسارے کم کرنے کے لیے حکومتی اخراجات پر تنقید کے نتیجے میں ایتھنز میں پر تشدد مظاہرے شروع ہوئے۔
یورپ کی مضبوط معیشتوں ، مثلاً جرمنی نے یونان کو اس صورت حال سے نکلنے کی راہ دکھائی ہے اور اپنی امداد کو یونان کی طرف سے سنجیدہ اقدامات کے ساتھ مشروط کیاہے۔ یہ توقع بھی کی جارہی ہے کہ G-20 ممالک خسارہ کم کرنے کے طریقوں پر بھی بات کی جائے گی۔
ماہر معاشیات فریڈ برگسٹن کا تعلق پیٹر سن انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اکنامکس سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یورپ کا مالیاتی خسارہ G-20 کے ایجنڈے میں سرِفہرست ہے اور باقی ممالک کے لیے وارننگ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور دیگر ممالک کو ایسے ہی خطرات کا سامنا ہے۔اگرچہ ابھی یہ خطرہ چھوٹے پیمانے پر ہے ، لیکن اگر مسائل کو حل نہ کیا گیا تو انہیں بھی سنگین صورت حال درپیش ہوسکتی ہے۔
توقع کی جارہی ہے کہ جی ٹونٹی کے راہنما عالمی تجارت میں توازن پر بھی گفت گو کریں گے، جس میں امریکی تجارت میں کمی اور چین کی بڑھتی ہوئی تجارت بھی شامل ہو گی۔ تجارت کا عدم توازن دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاسی نوک جھونک کی ایک وجہ ہے۔ چین نے حال ہی میں یوان میں تجارت کو آسان کر دیا ہے۔جس سے یوان کی قیمت بڑھ جائے گی اور چینی مصنوعات مہنگی ہو جائیں گی، جس سے دیگر ملکوں میں تیار ہونے والی مصنوعات عالمی منڈی میں چینی اشیا کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجائیں گی۔
دنیا کے آٹھ بڑے صنعتی ممالک کے راہنما جنہیں G-8 کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ان مسائل پر ابتدائی بات چیت کے لیے کینیڈا میں ہی جمعے اور ہفتے کے روز ملاقات کریں گے۔ جس کے بعد G-20 راہنماوں کی ملاقاتیں ہوں گی۔