رسائی کے لنکس

حماس کی طرف سے تین فلسطینیوں کی سزائے موت پر عملدرآمد


حماس کے جنگجو (فائل فوٹو)
حماس کے جنگجو (فائل فوٹو)

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین کے دفتر سے جاری ایک بیان میں بھی غزہ میں سزائے موت پر عملدرآمد کی شدید مذمت کی گئی۔

غزہ میں حماس کی طرف سے قتل کے تین فلسطینی مجرموں کی سزائے موت پر عملدرآمد پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے کڑی تنقید کی ہے اور یہ عملدرآمد حماس اور فتح کے مابین ہونے والے معاہدے کی خلاف ورزی بھی قرار دی جا رہی ہے۔

سزائے موت پر عملدرآمد سے قبل فلسطین کے صدر محمود عباس سے منظوری لینا ضروری تھا جو کہ نہیں لی گئی۔ 2014ء میں حماس اور فتح کے درمیان شراکت اقتدار کا معاہدہ طے پانے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سزائے موت پر عملدرآمد کیا گیا۔

فتح کے ترجمان اسامہ قاسمی کا کہنا تھا کہ صدر عباس کی منظوری کے بغیر سزا پر عملدرآمد "ایک جرم اور قانون کی واضح خلاف ورزی تھا اور یہ (فریقین میں) خلیج کو مزید بڑھائے گا، یہ حماس کی طرف سے واضح پیغام ہے کہ وہ قومی اتحاد نہیں چاہتا اور فلسطینی قانون کی پرواہ نہیں کرتا۔"

2014 میں متحدہ حکومت کے معاہدے پر عملدرآمد کبھی دیکھنے میں نہیں آیا اور حماس غزہ میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھے ہوئے ہے۔

غزہ کے وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ سزائے موت پر عملدرآمد مرکزی جیل میں کیا گیا اور اس سے قبل مقتولین کے لواحقین نے مجرموں کو معاف کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان میں سے دو مجرموں کو پھانسی دی گئی جب کہ ایک کو فائرنگ اسکواڈ سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیموں نے حماس پر زور دیا تھا کہ وہ سزائے موت پر عملدرآمد نہ کرے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ایک عہدیدار سری باشی کا کہنا تھا کہ "کسی کو بھی موت کی سزا نہیں دی جانی چاہیے، خاص طور پر ایسے قانونی نظام میں جس میں تشدد اور جبر عام ہو۔"

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین کے دفتر سے جاری ایک بیان میں بھی غزہ میں سزائے موت پر عملدرآمد کی شدید مذمت کی گئی۔

2014ء میں اسرائیل کے ساتھ ہونے والی جنگ میں حماس نے 23 فلسطینیوں کو اسرائیل کے لیے جاسوسی کے الزام میں موت کے گھاٹ اتارا تھا۔

XS
SM
MD
LG