رسائی کے لنکس

غزہ ناکہ بندی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام


جو لوگ اسرائیل میں کام کرتے تھے یا اسرائیلیوں کے ساتھ کاروبار کرتے تھے ، غذائی مصنوعات پر پابندی سے زیادہ اُن کے لیے روزگار کےمواقع کا ہاتھوں سے جانا زیادہ نقصان دہ معاملہ ہے

اِس ماہ حماس کو غزہ کی پٹی پر قابض ہوئے تین سال ہوچلے ہیں۔ حماس کے انتخابات جیتنے کےبعد اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کی ۔ لیکن شدید عالمی دباؤ کے بعد اسرائیل اب اس ناکہ بندی کی سختی میں کچھ کمی لانے پر مجبور ہوا ہے۔ ناکہ بندی کا ایک مقصد، علاقے میں اشیائے صرف کے داخلے کو محدود کرکے غزہ کے مکینوں پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ حماس کے خلاف اُٹھ کھڑےہوں۔ ناکہ بندی کم کرنے کے اسرائیلی اقدام کا سبب وہ بین الاقوامی تنقیدہے جس کا آغاز گذشتہ ماہ غز ا جانے والے امدای بحری جہازوں پر مہلک اسرائیلی حملے کے بعد ہوا۔ اس چھاپے کے بعد داخلی طور پر اسرائیل میں بھی حکومت سے ناکہ بندی پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ سامنے آیا، جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ مؤثر ثابت نہیں ہوا، اور ہوسکتا ہے کہ اِس سے حماس کو تقویت ملی ہو۔

غزہ شہر کے فراس مارکیٹ کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ناکہ بندی کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔

اسٹالوں پر تازہ میوے اور سبزیوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ قصاب ، دوکان میں ٹنگے گوشت میں سے ٹکڑے کاٹ کر فروخت کررہے ہیں۔

ضرورت کی بنیادی اشیا کے علاوہ قلفیاں، مرتبان ، جِن میں یورپ سے درآمد شدہ جام اور چاکلیٹ تک موجود ہیں۔ پھر ایسے سگریٹ بھی موجود ہیں جِن کی اسرائیلی اور مصری ناکہ بندی کے باعث داخلے پر پابندی ہے۔

متعدد اشیا ایسی ہیں جو مصر سے سرنگوں کے ذریعے اسمگل ہوکر یہاں پہنچتی ہیں، جوحماس کی اجازت سے آتی ہیں اور جس پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔

گروپ کی طرف سےسال 2007 میں تشدد کی بنیاد پر غزہ کی پٹی پر قبضہ جمانے کےبعداسرائیلی ناکہ بندی ہوئی تاکہ ہتھیار یا ایسے مواد کے داخلے کو روکا جاسکے جِن سے ہتھیار بنائے جا سکتے ہوں۔

اسرائیل نے ناکہ بندی میں کمی لانے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے، لیکن اسرائیلی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ پابندی قومی سلامتی کے لیے لازم ہے اور وہ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ اِسے یکسر طور پر اٹھا لیا جائے۔

ناکہ بندی کے ذریعےہتھیاروں کی نقل و حرکت کو روکنے کے علاوہ اسرائیل کا مقصد یہ تھا کہ غزہ کے مکینوں پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ حماس کا تختہ الٹ دیں۔ اسرائیل کو توقع ہے کہ ایسا کرنے سے وہ گِلاد شلیت نامی اسرائیلی فوجی کو بازیاب کرالے گا جسے 2006ء میں پکڑ کر غزہ لے جایا گیا تھا۔

جب سے ناکہ بندی کا آغاز ہوا ہے اِن میں سے کوئی اہداف حاصل نہیں ہو سکے۔ غزہ کی اسٹوروں پر خوراک اور دیگر اشیا کے انبار دیکھ کر اسرائیل کے کچھ لوگوں نے اس بات پر سوال اٹھایا کہ کیا یہ بندش مؤثر ثابت ہو رہی ہے؟

یہ سوال پوچھنے پر کہ ناکہ بندی کے نتیجے میں کیا مشکلات درپیش آ رہی ہیں، غزہ کے متعدد باشندوں نے بتایا کہ خوراک اور ضرورت کی دیگر عام اشیا کی دستیابی کا معاملہ اُن کی تشویش کا اصل سبب نہیں ہے۔

اڑتالیس سالہ، اشرف القومی، فراس مارکیٹ میں ایک ٹھیلا لگاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے پاس بیچنے کے لیے کافی مصنوعات ہیں، لیکن چند ہی لوگ اُن کو خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں خوراک تو موجود ہے لیکن کوئی روزگار دستیاب نہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ متعدد لوگ بے روزگار ہیں اور گھروں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ لوگوں کے پاس پیسے نہیں کہ بچوں کا پیٹ بھر سکیں۔

جو لوگ اسرائیل میں کام کرتے تھے یا اسرائیلیوں کے ساتھ کاروبار کرتے تھے ، غذائی مصنوعات پر پابندی سے زیادہ اُن کے لیے روزگار کےمواقع کا ہاتھوں سے جانا زیادہ نقصان دہ معاملہ ہے ۔

ماجدہ زروق کا گزر بسر اُس کے شوہر کی تنخواہ پر تھا، جو الیکٹریشن ہیں اور اسرائیل میں روزگار کرتے تھے۔ ہزاروں دوسرے لوگوں کی طرح ناکہ بندی کے بعد سرحد پار کرنے کا اجازت نامہ اُن سے چھین لیا گیا۔ اب، مسز زروق، غزہ کے ہزاروں مکینوں کی طرح اپنے گزر بسر کے لیے اقوامِ متحدہ اور حماس پر انحصار کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اقوإمِ متحدہ اُن کے خاندان کی امداد کر تا ہے، اور وہ شروع کے دِنوں کو بھول نہیں پائیں جب آٹا موجود نہیں تھا اور اقوام متحدہ اُنھیں آٹا اور دیگر اشیائے صرف مہیا کرتا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اب تک اقوام متحدہ ، اور ساتھ ہی سرنگوں کو کھلا رکھ کر حماس مدد فراہم کر رہے ہیں۔

اشیا کی کمی کے آثار بھی ہیں۔

اکثرو بیشتر ، بجلی چلی جاتی ہے اور جنریٹر چلنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔

حماس کو بنکر (زمین دوز پناہ گاہیں)بنانے سے روکنے کی غرض سے، اب تک اسرائیل نے علاقے میں سیمنٹ کے داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس کے باوجود، کئی ایک سرکاری منصوبوں پر عمل درآمد ر نہیں رکا۔

XS
SM
MD
LG