رسائی کے لنکس

برلن حملہ آور سے رابطے کا شک، تیونس کا شخص زیرِ حراست


برلن (فائل)
برلن (فائل)

جرمن اہل کاروں نے کہا ہے کہ اِس شخص کا ٹیلی فون نمبر عامری کے موبائل ٹیلی فون نمبروں میں درج تھا۔ ادھر وکلائے استغاثہ نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ ’’تفتیش سے پتا چلتا ہے کہ ممکن ہے کہ (تیونس کے اِس شخص) کا حملے سے کوئی تعلق ہو‘‘

جرمن حکام نے تیونیسیا کے ایک شخص کو حراست میں لیا ہے جو مبینہ طور پر آنس عامری سے رابطے میں رہ چکا ہے۔ عامری نے برلن کے کرسمس مارکیٹ میں مہلک حملہ کیا تھا۔
وفاقی استغاثہ نے بدھ کے روز کہا ہے کہ 40 برس کےاس شخص کو اُن کے کاروبار اور رہائش گاہ کی تلاشی کے دوران حراست میں لیا گیا۔

اہل کاروں نے کہا ہے کہ اِس شخص کا ٹیلی فون نمبر عامری کے موبائل ٹیلی فون نمبروں میں درج تھا۔
وکلائے استغاثہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’تفتیش سے پتا چلتا ہے کہ ممکن ہے کہ (تیونس کے اِس شخص) کا حملے سے کوئی تعلق ہو‘‘۔
جمعرات تک سرکار یہ فیصلہ کرلے گی آیا اتنا ثبوت موجود ہے جس کے تحت اس فرد کی باضابطہ گرفتاری عمل میں لائی جا سکے۔

عامری نے مارکیٹ کی بھیڑ کے اوپر ٹرک چڑھا دی، جس میں 12 افراد ہلاک اور 56 زخمی ہوئے۔

حملے سے قبل، اُس نے ایک وڈیو تیار کی جس میں داعش کے دہشت گرد گروپ اور اُس کے لیڈر ابو بکر البغدادی سے وفاداری کا عہد کیا گیا تھا۔
سنہ 2011میں تیونس سے غیر قانونی طور پر ترکِ وطن کرنے کے بعد، اٹلی میں پناہ گزینوں کے حراستی مرکز کو نذر آتش کرنے کے الزام میں اُنھیں قید کیا گیا۔ رہائی کے بعد، اُنھیں تیونس ملک بدر کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن دفتری ضابطوں کی بنا پر ایسا نہ ہو سکا۔ وہ اکثر و بیشتر سوٹزرلینڈ اور پھر جرمنی کا دورہ کیا کرتا تھا، جہاں بظاہر وہ ایک قدامت پسند نیٹ ورک کے زیر اثر آیا، جس پر داعش کے شدت پسند گروہ کے لیے بھرتیاں کرنے کا الزام ہے۔

حالانکہ جرمنی نے گذشہ موسم گرما میں موصول ہونے والی پناہ کے حصول کی درخواست مسترد کردی تھی اور اُن پر دہشت گردی کے شبہے کا اظہار کیا گیا، لیکن ملک بدری سے قبل حکام تیونس کی جانب سے کاغذی کارروائی مکمل ہونے کے منتظر رہے۔
ایسے میں جب اُن کی ملک بدری کا حتمی فیصلہ ہونا تھا، عامری نے ایک ٹرک ہائی جیک کیا اور برلن کی کرسمس مارکیٹ میں خریداری میں مصروف لوگوں پر چڑھا دیا۔
میلان کے ایک ریلوے اسٹیشن پر، اٹلی کی پولیس نے عامری کو گولی مار کر ہلاک کیا۔

XS
SM
MD
LG