رسائی کے لنکس

اشرف غنی کی تقریب حلف برداری، پاکستانی وفد کی کابل آمد


صدر اشرف غنی (فائل)
صدر اشرف غنی (فائل)

دوسری مدتِ صدارت کے لیے منتخب ہونے والے افغان صدر اشرف غنی کی تقریب حلف برداری پیر کو کابل میں منعقد ہو رہی ہے۔ جس میں شرکت کے لیے پاکستان سے تعلق رکھنے والے پشتون قوم پرست سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور عہدیداروں پر مشتمل ایک وفد کابل پہنچ گیا ہے۔

کابل پہنچنے والے پشتون سیاسی رہنماؤں میں سابق وزیرِ داخلہ اور قومی وطن پارٹی کے چیرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ، سابق وفاقی وزیر اور عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر غلام احمد بلور، سابق رکنِ قومی اسمبلی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، سابق سینیٹر افراسیاب خٹک، سابق خواتین رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر اور جمیلہ گیلانی شامل ہیں۔

فرحت اللہ بابر کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک چار رکنی وفد بھی کابل پہنچنے والوں میں شامل ہے۔

پشتون تحفظ تحریک کے رہنما ڈاکٹر سید عالم محسود، عبداللہ ننگیال، فضل خان ایڈووکیٹ اور رحیم شاہ ایڈووکیٹ بھی کابل پہنچ چکے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے وفد میں غلام احمد بلور کے علاوہ بلوچستان کے سابق صوبائی وزیر اصغر خان اچکزئی، خیبر پختونخوا کے سابق صوبائی وزیر اور عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری مالیات حاجی ہدایت اللہ اور بریگیڈئر ریٹائرڈ محمد سلیم خان بھی شامل ہیں۔

پشتون تحفظ تحریک کے رہنما اور ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کو اتوار کی صبح اسلام آباد کے شھید بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر حکام نے کابل جانے سے روک دیا تھا۔ تاہم، بعد میں حکام نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے دونوں ارکان قومی اسمبلی کو کابل جانے کی اجازت دی ہے۔

کابل سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق، افغانستان کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر پچھلے کئی مہینوں سے جاری اختلافات بات چیت کے ذریعے حل ہو گئے ہیں اور صدارتی انتخابات میں تیسری بار دوسرے نمبر پر ووٹ لینے والے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو دوبارہ چیف ایگزیکٹو کا عہدہ دیا جا رہا ہے۔

صدارتی انتخابات میں صرف تین فی صد ووٹ لینے والے حزبِ اسلامی افغانستان کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمتیار اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی طرح انتخابی نتائج کو مسترد کرنے والے رشید دوستم کے بیٹوں کو وزارتیں دی جا رہی ہیں۔

امریکہ میں 9/11 کے دہشت گرد حملوں اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی بار کئی ایک اہم طالبان رہنماؤں کو بھی کابینہ میں شامل کرنے کی اطلاعات ہیں، جن میں سابق وزیر خارجہ مولوی وکیل احمد متوکل اور پاکستان ہی سے گرفتار اور بعد میں امریکی افواج کے حوالے کیے جانے والے سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف نمایاں ہیں۔

متفقہ طور پر ترتیب دیے جانے والے اس نئے سیاسی نظام میں سابق صدر حامد کرزئی کے بطور مصالحتی کمیشن کے سربراہ تقرری کی اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG