رسائی کے لنکس

بلوچستان کے سرکاری ملازمین کا دھرنا: 'تنخواہیں بڑھائیں تو اس کے لیے قرض لینا پڑے گا'


بلوچستان حکومت سرکاری ملازمین کو احتجاج ختم کرنے پر زور دے رہی ہے۔
بلوچستان حکومت سرکاری ملازمین کو احتجاج ختم کرنے پر زور دے رہی ہے۔

پاکستان کے صوبے بلوچستان کے سرکاری ملازمین گزشتہ سات روز سے تنخواہوں میں اضافے کے لیے دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ تاہم حکومت کا مؤقف ہے کہ اگر ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو آنے والے چند برسوں میں حکومت کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے قرضہ لینا پڑے گا۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں وزیر اعلٰی بلوچستان کی سرکاری رہائش گاہ سے متصل ایدھی چوک پر سیکڑوں سرکاری ملازمین دھرنے پر بیٹھے ہیں۔

دھرنے کی کال بلوچستان میں سرکاری ملازمین کی ٹریڈ یونیز کے اتحاد 'بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس' نے دی ہے۔ دھرنے میں مرد ملازمین کے علاوہ خواتین اور بزرگ ملازمین کی بھی بڑی تعداد شریک ہے۔

ملازمین کے اتحاد کا مطالبہ ہے کہ حکومت آئندہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فی صد اضافے کا اعلان کرے۔

دھرنے میں شریک ایک بزرگ ملازم محمد نعیم تاثیر کی ماہانہ تنخواہ 60 ہزار روپے ہے۔ ان کے بقول بچوں کے اسکولوں کی فیس، گھر کا راشن اور یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کے بعد ان کے پاس مہینے کے آخر میں کچھ نہیں بچتا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے محمد نعیم نے بتایا کہ گزشتہ چند برسوں میں مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

ان کے بقول، "میں پہلے اپنی تنخواہ سے گھر بار چلاتا تھا، بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے ہو جاتے تھے اور پھر بھی کچھ پیسے بچا لیتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہوتا، مہنگائی کی وجہ سے اب بچت تو دور کی بات مہینے کے آخر میں لوگوں سے قرض مانگنا پڑتا ہے"

دھرنے میں شریک ملازمین کے مطالبات کیا ہے؟

دھرنے میں شریک سرکاری ملازمین صرف تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ ہی نہیں کر رہے بلکہ وہ سروس اسٹرکچر اور مختلف الاؤنسز کی ادائیگی کی بات بھی کر رہے ہیں۔

بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس کے ایک سینئر رکن پروفیسر عبدالرزاق نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملازمین تنخواہوں میں 25 فی صد اضافے کے علاوہ چارٹر آف ڈیمانڈ کے 19 مطالبات کو تسلیم نہ کرنے پر احتجاج کر رہے ہیں۔

ان کے بقول ملازمین کے مطالبات میں پروموشنز، اپ گریڈیشن، سروس اسٹرکچر، ہیلتھ کارڈز کی فراہمی، مختلف محکموں سے برخاست ملازمین کی بحالی اور ملازمین کے خلاف حکومت کی مبینہ غلط پالیسیوں کے خاتمے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

پروفیسر عبدالرزاق کے مطابق حکومت کو ایک ماہ قبل ملازمین کے تحفظات اور احتجاجی شیڈول کے حوالے سے آگاہ کیا تھا۔

دھرنے کے باعث کوئٹہ میں ٹریفک کا نظام متاثر

سرکاری ملازمین کے دھرنے کے باعث کوئٹہ شہر میں ٹریفک جام کے مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ اندرونِ شہر جناح روڈ، زرغون روڈ، جوائنٹ روڈ، اسمنگلی روڈ، کوئلہ پھاٹک اور دیگر علاقوں میں لوگ گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں۔

پیر کو ملازمین کے الائنس کی کال پر بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر بھی دھرنا دیا گیا جس کی وجہ سے بلوچستان کا زمینی رابطہ نو گھنٹے تک پنجاب اور سندھ سے منقطع رہا۔

ملازمین کا دعویٰ ہے کہ صوبائی حکومت نے کوئٹہ اور ضلع پشین میں ملازمین کے خلاف مقدمات بھی درج کرائے ہیں جب کہ بعض ملازمین کو گرفتار بھی کیا ہے۔

یاد رہے کہ بلوچستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیشِ نظر دفعہ 144 نافذ ہے۔ تاہم ملازمین کا دعویٰ ہے کہ دفعہ 144 کا نفاذ ملازمین کو ان کے حقوق سے دست بردار کرنے کی ایک سازش ہے۔

بلوچستان کی حکومت کیا کہتی ہے؟

وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ملازمین کے دھرنے اور اس سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر اب تک ذرائع ابلاغ سے براہِ راست بات تو نہیں کی۔ مگر گزشتہ چند روز سے وہ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے دھرنے پر تبصرے کر رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی حکومت دو برسوں میں پہلے ہی 23 سرکاری شعبوں میں الاؤنسز دے چکی ہے اور اب بھی لوگ احتجاج کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے کچھ نہیں دیا۔

جام کمال خان نے کہا کہ کرونا وائرس کے باعث دنیا کی بڑی معیشتیں گر گئی ہیں۔ پاکستان 22 کروڑ عوام کا ملک ہے اور ہمارے چیلنجز بہت زیادہ ہیں مگر لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ کرونا سے کتنا نقصان ہوا ہے۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سرکاری ملازمین کو چاییے کہ وہ عام عوام کو ریلیف دینے کے لیے حکومت کا ساتھ دیں نا کہ روز اپنی ہی تنخواہوں میں اضافے کی بات کریں۔

وزیر اعلیٰ نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اگر حکومت ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرتی ہے تو آنے والے چند برسوں میں فنڈز کی کمی کی وجہ سے حکومت کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے قرضہ لینا پڑے گا۔

ان کے بقول، "دو سال قبل جب ہماری حکومت آئی تو ہم پینشن کی مد میں 30 ارب روپے ادا کر رہے تھے جو اب بڑھ کر 40 سے 50 ارب روپے ہو گئی ہے۔ آئندہ برسوں میں یہ بڑھ کر 80 ارب تک پہنچ جائے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ حکومت صرف تنخواہیں اور پینشن ادا کرتی رہے گی دیگر ترقیاتی کاموں کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں ہو گا۔

صوبائی حکومت نے احتجاجی مظاہرین کے رہنماؤں سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ تاہم کئی اجلاس کے باوجود فریقین کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔

ملازمین کے گرینڈ الائنس نے عندیہ دیا ہے کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے تو وہ احتجاج کے دائرے کو صوبے بھر تک وسعت دیں گے۔

XS
SM
MD
LG