رسائی کے لنکس

غمگین اختتام والی فلمیں کامیابی کی ضمانت؟


دلچپ بات یہ ہے کہ راجیش کھنہ اور شاہ رخ خان جیسے میگا اسٹارز نے بھی ’ٹریجڈی ہیرو‘ کے روپ میں خوب کامیابیاں سمیٹیں۔

بالی وُوڈ میں فلموں کا ’غمگین اختتام‘ باکس آفس پر کبھی کبھی خوشی کی خبر بھی بن جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ریلیز ہونے والی رومینٹک فلم ’عاشقی 2‘ کا روک اسٹار ہیرو راہول جے کار جب کلائمیکس میں اپنی محبت یعنی ہیروئن کو بچانے کی خاطرخوشی خوشی زندگی کی بازی ہار دیتا ہے تو کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ یہ ’ٹریجک اینڈ‘ باکس آفس کے لئے خوش قسمتی لے کر آئے گا اور وہ فلم کو ہٹ بنادے گا۔۔ لیکن حقیقت میں ایسا ہی ہوا۔

فلم ٹریڈ سے وابستہ افراد کے مطابق ”فلم کا انجام دکھی تھا۔۔ اس لئے فلم چل نہ سکی۔۔“ یہ بہانہ ایسے فلم میکر ز بناتے ہیں جو باکس آفس پر ناکامی کا ملبہ کسی اور پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔

عاشقی 2‘ کی مصنفہ شگفتہ رفیق کا بھارتی اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ،’’ ’عاشقی 2‘ کا انجام اس کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا تھا جیسا کہ فلم میں دکھایا گیا ہے۔ فلم ایک ایسے آدمی کے گرد گھومتی ہے جو اپنی جان اس لئے دے دیتا ہے تاکہ اپنی محبوبہ کی جان بچا سکے۔ ہم نے فلم کی باکس آفس پر پرفارمنس کے متعلق فکر ہی نہیں کی۔ یہ کوئی رسک نہیں تھا بلکہ اسٹوری کے ساتھ سچی کمٹمنٹ تھی۔۔

بالی ووڈ میں ہر دور میں ایسی فلمیں بنائی جاتی رہی ہیں جن کا انجام ہیرو اور ہیروئن کی جدائی یا موت پر ختم ہوتا تھا۔ سینما گھروں سے شائقین بھلے آنسو بہاتے نکلتے ہوں مگر فلم کو ہٹ کروا دیتے تھے۔

لیکن ٹریجڈی فلموں کی کامیابی کے باوجود بہت سارے فلم میکرز ٹریجڈی اینڈ یا اداس وغمگین کردینے والے اختتام والی فلم بنانے کا رسک لینے کو تیار نہیں ہوتے۔ 2009ء میں راکیش اوم پرکاش مہرا نے ’دہلی 6‘ بنائی جس میں فلم کے مرکزی کردار ابھیشک بچن کو مر جانا تھا۔ لیکن اسٹوڈیو کے دباؤ پر ڈائریکٹر کو فلم کا انجام بدلنا پڑا اور یوں فلم کے دو کلائمیکس پکچرائز کئے گئے۔۔ یہ خبر بھی گرم رہی کہ ’دہلی 6‘ اپنے اصل انجام کے ساتھ دوبارہ ریلیز کی جائے گی۔

پچیس سال قبل 1988ء میں منصور خان کی فلم ’قیامت سے قیامت تک‘ کے بھی دو انجام فلمائے گئے تھے۔ فلم سے جڑے لوگوں کی دو مختلف رائے سامنے آئی۔ کچھ کا خیال تھا کہ بڑی عمر کی آڈینز ’ہیپی اینڈنگ‘ پسند کرتی ہے جبکہ ’نوجوان‘ ٹریجڈی اینڈ پسند کریں گے۔ ڈائریکٹر نے رسک لینے کا فیصلہ کیا اور فلم ٹریجڈی اینڈ کے ساتھ ریلیز کردی۔ ” قیامت سے قیامت تک “ نے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی اور عامر خان اور جوہی چاؤلہ کو سپر اسٹار کے درجے پر فائز کردیا۔

بالی ووڈ میں ’لواسٹوریز کی ماں‘ کہلائی جانے والی 1960کی فلم ’مغل ِاعظم‘ کا انجام بھی خوشگوار نہیں بلکہ دکھی کردینے والا تھا۔ 1981میں تہلکہ مچا دینے والی لواسٹوری ’ایک دوجے کے لئے‘ کے بارے میں فلم رائٹر دلیپ ٹھاکر کا کہنا ہے کہ باکس آفس پر شاندار کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ فلم کے ہیرو اور ہیروئن دونوں محبت میں جان دے کر شائقین کی ہمددری اور پیار جیتنے میں کامیاب رہے۔ فلم کے رسپونس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ فلم دیکھنے کے بعد کئی نوجوان جوڑوں نے ایک ساتھ خودکشی کرنے کی کوشش بھی کی۔

مشہور فلم میکر مہیش بھٹ نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ 1982میں جب انہوں نے ’ارتھ‘ فلم بنائی تو ایک سال تک فلم کا کوئی خریدار ہی نہیں ملا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فلم کی مرکزی کردار اپنے شوہر اور چاہنے والے سے منہ موڑ لیتی ہے۔۔

بلیک اینڈ وائٹ سے جدید ٹیکنالوجی کے موجودہ دور تک ہر زمانے میں بننے والی ”دیوداس“ بھی ٹریجڈی اینڈ والی فلموں میں ایک کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ ہیروئن کی شادی کہیں اور ہونے کے غم کوشراب میں ڈبو دینے والے” دیوداس“ کو ہر دور میں شائقین سے داد ملی۔

دلچپ بات یہ ہے کہ راجیش کھنہ اور شاہ رخ خان جیسے میگا اسٹارز نے بھی ’ٹریجڈی ہیرو‘ کے روپ میں خوب کامیابیاں سمیٹیں۔ 1969 میں راجیش کھنہ کی ’ارادھنا‘ کیا ہٹ ہوئی، وہ ہر فلم میں مرنا چاہتے تھے پھر چاہے وہ خاموشی (1969)ہو، سفر(1970)یا آنند(1971)، راجیش بابو ان تمام فلموں میں اسکرین پر مر کر امر ہوگئے۔

بات صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ راجیش کھنہ نے اس ڈر سے کہ کہیں امیتابھ ان کی ’کامیابی کے فارمولے‘ پرعمل نہ کرلیں، 1973میں بنائی گئی فلم ’نمک حرام‘ کا اینڈ تبدیل کروا دیا۔ فلم کے اوریجنل اینڈ میں امیتابھ کو موت کو گلے لگانا تھا۔
XS
SM
MD
LG