رسائی کے لنکس

ریاست ہوائی میں امن کے فروغ کا دِن


ریاست ہوائی میں امن کے فروغ کا دِن
ریاست ہوائی میں امن کے فروغ کا دِن

ایک ایسےوقت میں جب افغانستان سمیت دنیا کے کئی ملک جنگ یا جنگ جیسے حالات کا شکار ہیں ، امریکی ریاست ہوائی میں امن کے فروغ کا دِن منایا گیا۔اِس کا مقصد امریکہ کی اِس الگ تھلگ جزیرہ نما ریاست کے طلباء کو دنیا کے مسائل کی ایک بڑی وجہ جنگ اور تشدد کو روکنے کا پیغام دینا تھا ۔

ہوائی، امریکہ کی وہ واحد ریاست ہے جہاں امن کا دِن ریاستی سطح پر منایا جاتا ہے۔ سنہ2007 میں ہوائی کے گورنر نےہوائی میں امن کا دِن منانے کی روایت کو باقاعدہ قانونی شکل دی تھی۔

وِڈیو سنیئے:

جان رکی کارماسو، ریاست ہوائی کی اسمبلی کے رکن ہیں۔ اُن کے بقول، ریاستی سطح پر امن کا دِن منانے کا مقصد ہوائی کے لوگوں اور خاص طور پر بچوں میں امن کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اُنھیں اِس بات کا احساس دلانا ہے کہ وہ بھی ناصرف ہوائی بلکہ دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے لیے کوششیں کر سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف ہوائی کی طرف سے سال 2010 ءکے لیے امن کا خصوصی ایوارڈ حاصل کرنے والے مقامی بودھ رہنما اور ماہر تعلیم مائلز اوک مورا نے طلبا پر عدم تشدد کے رجحانات کے فروغ کی کوشش کا حصہ بننے کے لیے زور دیا۔

اوک مورا کے بقول،‘ ہمیں بھی یہاں جرائم، منشیات اور نوجوانوں کے تعلیمی مسائل درپیش ہیں، اور ہم سب ہی ایک بہتر اور پرامن مستقبل چاہتے ہیں۔ ’

اِس موقعے پر مقامی بچوں نے دنیا میں امن قائم کرنے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

یونیورسٹی آف ہوائی میں ڈیپارٹمنٹ آف ایجوکیشن کے تعاون سے یہ تقریب منعقد کی گئی۔ شعبے سے منسلک پروفیسر جینی لم کا کہنا تھا کہ کیمپس پر اِس تقریب کا مقصد یہ بھی ہے کہ طلبہ کے اندردنیا کے مسائل اور معاملات سے متعلق ثقافتی اور تہذیبی سمجھ بوجھ پیدا جائے۔

جینی لم کہتی ہیں کہ تاریخی طور پر امن کا مقصد جنگوں کا خاتمہ تھا، پھر یہ مقصد ذرا سی تبدیلی سے تشدد کے رحجان کو کم کرنا ہو گیا لیکن آج کی دنیا میں ہمیں ثقافتی جنگ کا بھی سامنا ہے جس کے لیے نوجونوں کے اندر ایک دوسرے کی تہذیب و ثقافت کی بہتر سمجھ بوجھ پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے ہماری یونیورسٹی میں خصوصی نصاب بھی موجود ہے۔

یونیورسٹی آف ہوائی کی جانب سے اس سال ترکی میں ہونے والی ورلڈ یوتھ کانگریس میں شرکت کرنے والے طلبہ نے بھی اپنے تجربات اور خیالات سے حاضرین کو آگاہ کیا۔اُن کا کہنا تھا کہ ہوائی جیسے جزیرے پر رہتے ہوئے ، جو دنیا سے بلکل الگ تھلگ ہے، انھیں احساس تو تھا کہ باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے لیکن مختلف لوگوں سے مل کر اب وہ دنیا کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔

ایک طالبِ علم نے کہا کہ اب جب بھی وہ کوئی خبر سنتے ہیں تو اُنھیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اُن لوگوں کو جانتے ہیں۔

اِس ایونٹ کے لیے خصوصی مقرر پال شپیل تھے جو سابقہ امریکی فوجی ہیں اور عراق جنگ میں حصہ لے چکے ہیں اور دنیا میں جنگ کے خاتمے کے لیے کوششوں کے حوالے کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔ پال شپیل کے بقول، جیسے گاندھی نے کہا تھا کہ اگر ہم امن چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں سے شروع کرنا ہوگا۔ یہ طلبہ ہمارے آنے والے کل کے لیے فیصلہ سازی کریں گے اور یہی دنیا میں انسانیت کی بقا کےذمہ دار ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG