بھارت میں قبل از وقت اور غیر معمولی ہیٹ ویو ریکارڈ کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے نئی دہلی کو گندم کی پیداوار میں شدید کمی کا سامنا ہے۔ گندم کی پیداوار میں کمی کے باعث بھارت کے لیے اپنی مقامی ضروریات پوری کرنے اور برآمدات میں اضافہ کرنے کے درمیان توازن پیدا کرنے پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
بھارت کے محکمۂ موسمیات نے جمعرات کو آئندہ چار روز کے لیے ملک کی وسطی اور شمال مغربی ریاستوں میں ہیٹ ویو کا الرٹ جاری کیاہے جب کہ مارچ کے مہینے میں پڑنے والی گرمی کو اب تک کی سب سے زیادہ گرمی قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارت میں مارچ کے مہینے میں اس قدر شدید درجہ حرارت آخری بار 1901 میں ریکارڈ کیا گیا تھا جس نے فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔
میڈیکل جرنل دی لینسٹ کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق 1990 سے 2019 تک بھارت میں درجہ حرارت بڑھنے کے خطرات میں 15 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ بھارت ان پانچ سرِ فہرست ممالک میں شامل ہے جہاں شدید گرمی کے باعث بزرگ اور غریب افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گرمی کے باعث دنیا میں سب سے زیادہ اموات بھارت اور برازیل میں ہوتی ہیں۔
یاد رہے کہ مارچ کا مہینہ موسمِ بہار ہوتا ہے اور عموماً ٹھنڈ رہتی ہے۔ بھارتی کسان اس موسم میں گندم کی کاشت کرتے ہیں۔ لیکن حیران کن طور پر رواں برس مارچ کے مہینے میں شدید گرمی پڑنے کے بعد کسان اپنی فصلوں کے بارے میں پریشان ہیں۔
گندم کی فصل کے لیے شدید گرمی حساس ہوتی ہے اور خاص طور پر اس وقت جب فصل تیاری کے آخری مرحلے میں ہو۔
'گندم کی خریداری میں 20 سے 50 فی صد تک کمی آ سکتی ہے'
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق بھارت کے شمالی شہر چندی گڑھ سے تعلق رکھنے والے زرعی پالیسی کے ماہر دوندر شرما کا کہنا ہے کہ پورے بھارت کے لیے صرف پنجاب 'اناج کے پیالے' کی مانند ہے جو گندم کے قومی ذخیرے میں سب سے بڑا شراکت دار ہے۔ ان کے بقول حکومت کو امید تھی کہ وہ پنجاب سے ہی گندم کا ایک بڑا ذخیرہ جمع کر لے گی تاہم حکومت کو اب توقع ہے کہ رواں برس گندم کی پیداوار میں کمی واقع ہو گی۔
دوندر شرما نے کہا کہ ان کے خیال میں گندم کی پیداوار میں رواں برس 25 فی صد تک کمی واقع ہو گی۔
اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا بھارت کی دیگر ریاستوں اترپردیش اور مدھیا پردیش کو بھی ہے جو گندم کی پیداوار کے لیے اہم جانی جاتی ہیں۔
بھارت نے 2021 میں 43 ملین میٹرک ٹن سے سے زائد گندم خریدی تھی۔ دوندر شرما کے بقول اس میں رواں برس 20 سے 50 فی صد تک کمی آ سکتی ہے۔
واضح رہے کہ گندم کی پیداوار کے اعتبار سے بھارت دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جو اپنی پیداوار کا معمولی حصہ ہی برآمد کرتا ہے۔
یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے باعث بھارت گندم کی برآمد کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش میں ہے جو یورپ، افریقہ اور ایشیا کے کچھ ممالک ہیں۔ تاہم ماہرین شدید گرمی اور اس کے نتیجے میں گندم کی پیداوار میں ممکنہ کمی آنے پر ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر گندم کو برآمد کیا گیا تو نیا بحران جنم لے سکتا ہے۔
عالمی وبا کرونا وائرس سے قبل بھارت کے پاس مقامی ضروریات پوری کرنے کے لیے وافر مقدار میں گندم کا ذخیرہ موجود تھا۔ دوندر شرما کہتے ہیں اب یہ ذخائر دباؤ کا شکار ہیں کیوں کہ کرونا وبا کے دوران تقریبا 800 ملین غریب افراد میں مفت اناج تقسیم کیا گیا اور یہ پروگرام ستمبر کے آخر تک جاری رہا۔ تاہم اب یہ واضح نہیں ہے آیا اناج کی مفت تقسیم کا یہ پروگرام مزید جاری رہے گا۔
دوندر شرما کے مطابق قومی ذخیرے میں اب اضافی گندم موجود نہیں ہے جسے دیکھتے ہوئے گندم مزید درآمد نہیں کی جاسکتی اور مقامی مارکیٹوں میں بھی گندم کی دستیابی پر کافی دباؤ ہو گا۔
اے پی کے مطابق گندم کی پیداوار میں ممکنہ کمی سے متعلق جاننے کے لیے بھارت کی وزارتِ ذراعت و کامرس سے رابطہ کیا گیا ہے جس کا تاحال جواب نہیں آیا۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں 'ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔