پاکستان کی سیاسی قیادت نے کراچی یونیورسٹی دھماکے میں خاتون خود کش ببمار کے ملوث ہونے کو ایک نیا خطرناک رجحان قرار دیتے ہوئے اس کے سدباب کے لیے بلوچوں کے احساس محرومیت کو دور کرنے پر زور دیا ہے۔
پاکستان کی قومی اور بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے حقوق کی لڑائی نئی نہیں ہے، لیکن محرومیت اور نظرانداز کیے جانے کا احساس پرتشدد اقدامات پر اکسا رہا ہے۔
منگل کو کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں چینی زبان کے مرکز کے قریب ایک خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت کم از کم چار افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے ہیں۔حملے کی ذمہ داری بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیم، بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔
اس خودکش حملے میں مبینہ طور پر ملوث ساری بلوچ دو بچوں کی ماں تھیں اور ان کے قریبی رشتے دار اہم سرکاری عہدوں پر فائز ہیں یا رہ چکے ہیں۔ وہ بلوچستان یونیورسٹی میں ایم فل کی طالبہ تھیں اور ساتھ ہی اسکول ٹیچر بھی۔
لمحہ فکریہ ہے کہ لوگ اتنی دور کیوں چلے گئے! دباؤ، طاقت کا استعمال حل نہیں!
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ ضرورت سے زیادہ دباؤ کا استعمال اس قسم کے واقعات کا سبب بنتا ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ایک خوشحال، پڑھے لکھے خاندان کی خاتون جو کہ دو بچوں کی ماں بھی ہے اس نہج پر کیونکر پہنچی۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ ہماری قومی سیاسی و عسکری قیادت اور اس سے بڑھ کہ بلوچ رہنماؤں کےلیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہاں کے عوام ہم سے اس قدر دور کیوں چلے گئے ہیں۔
شاہد خاقان نے کہا کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو لوگ قومی اور صوبائی سطح پر بلوچ عوام کی نمائندگی کررہے ہیں کیا وہ عوام کے صحیح نمائندے بھی ہیں یا کہ وہ کسی اور کے منتخب کردہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہم موڑ ہے کہ بلوچستان کے مسائل کا سیاسی حل نکالنے کا فیصلہ کیا جائے کیونکہ دباؤ اور طاقت کے استعمال سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
علیحدگی پسندی کے پرتشدد واقعات پورے خطے میں پھیل سکتے ہیں!
بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل سینٹر انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ کراچی یونیورسٹی خود کش دھماکہ قابل مذمت ہے اور تشدد کا اظہار تشویش ناک ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو بچوں کی ماں خود کش حملہ بن گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ صرف صوبے یا پاکستان کی حد تک ہی تشویش ناک نہیں بلکہ اس کا دائرہ اور اثرات خطے تک پھیل سکے ہیں اور اس سے کئی دیگر قوم پرست، علاقائی و مذہبی تحریکوں کو بھی شہ مل سکتی ہے۔
انوار الحق کاکڑ کہتے ہیں کہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات کرنےسے کسی نے انکار نہیں کیا، لیکن بات چیت کا عمل اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت میں بہت سے پہلو ہیں اور وقت آگیا ہے کہ ان سوالات کو سامنے لایا جائے اور اس بارے فیصلہ لیا جائے۔
انوار کاکڑ کہتے ہیں کہ اگر سیاسی سطح پر اس کا حل نہیں ہوپاتا تو دیگر آپشن پر بھی کام کیا جانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیاں اس وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکیں کہ انہیں سیاسی حمایت حاصل نہیں تھی اور قومی حمایت کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے ادارے علیحدگی پسندوں سے نمٹ سکتے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ صوبے کے حوالے سے پائی جانے والی غیر یقینی صورتحال سے باہر نکلنے کے لیے فیصلہ کرنا چاہیے۔
خاتون کا پرتشدد راستہ اپنانا جمہوری جدوجہد کے لیے نیک شگون نہیں!
بلوچستان عوامی پارٹی کے ثناء اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ کراچی یونیورسٹی کا واقعہ بہت تشویش ناک ہے اور خواتین کی جانب سے تشدد کا راستہ اپنانا جمہوری جدوجہد کے لئے نیک شگون نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ریاست نے بلوچستان کے مسئلے کو سمجھنے اور اس کے سیاسی و جمہوری حل کی کوشش نہیں کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ اپنی بقاء، حق، ثقافت، معیشت اور جمہوری حق کی بات کرتے ہیں اور اگر انہیں نظر انداز کیا جائے تو وہ تشدد کا راستہ اپناتے ہیں۔ ان کے مطابق ریاست کے اداروں کو مشترکہ طور پر سوچنا ہوگا کہ لوگ اس حد تک کیوں چلے گئے کہ اپنی جانیں گنوانے پر مجبور ہیں۔
ثنا بلوچ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت نے بلوچستان کی ایک نمائندہ ہونے کی حیثیت سے مسائل کو سیاسی و آئینی طور پر آگے بڑھانے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کے پاس مسائل کو سلجھانے کا حل اور اس کے لیے درکار وسائل ہوتے ہیں اور بلوچستان کے مسائل ایسے نہیں کہ ان کا حل نہیں نکل سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ بلوچ عوام حق حاکمیت، وسائل پر اختیار اور آبادی کے تناسب میں تبدیلی نہ ہو چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ تمام ریاستی ادارے مشترکہ حکمت عملی اپنائیں کیونکہ ماضی میں ایسا بھی ہوا کہ اگر ایک ادارہ کوئی اقدام لیتا تھا تو دوسرا اس کا ساتھ نہیں دیتا تھا۔