رسائی کے لنکس

نواز شریف کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس اور سابق جج کے انکشافات، کب کیا ہوا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار پر الزامات عائد کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ پر کرپشن کے الزامات میں چلنے والے مقدمات زیرِ بحث آ گئے ہیں۔

جسٹس رانا شمیم نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعویٰ کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس نے ان کے سامنے پہلے اپنے رجسٹرار اور بعد میں ایک جج کو فون ملا کر کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو 2018 کے انتخابات سے پہلے ضمانت نہیں دی جائے۔

واضح رہے 2018 کے انتخابات سے قبل نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو ایون فیلڈ کیس میں سزا ہو چکی تھی اور انہوں نے اس سزا کے خلاف ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا تھا۔

ایون فیلڈ کیس میں کب کیا ہوا؟

تین اپریل 2016 کو انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے ساڑھے گیارہ لاکھ سے زائد خفیہ دستاویز جاری کی تھیں جس میں مبینہ طور پر آٹھ آف شور کمپنیوں کا تعلق پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے بھائی اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے خاندان سے بتایا گیا تھا۔

ان دستاویزات میں برطانیہ میں ایون فیلڈ فلیٹس کی خریداری کا معاملہ بھی شامل تھا۔

یہ دستاویز سامنے آنے کے بعد نواز شریف کو حزبِ اختلاف کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ 24 جون 2016 کو اس وقت کی حزبِ اختلاف تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن میں نواز شریف کی نااہلی اور ان کے اثاثے ضبط کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔

نواز شریف کی سزا، پس منظر اور پیش منظر
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:39 0:00

اگست 2016 میں اپوزیشن کی جماعتوں تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے پاناما پیپزر معاملے پر عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔

عدالت میں درخواست دائر کرنے کے بعد تحریک انصاف نے ستمبر میں وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف احتجاج شروع کردیا اور ان کے استعفی کے لیے 30 اکتوبر 2016 کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا بھی اعلان کیا۔

سپریم کورٹ نے 20 اکتوبر کو پاناما پیپرز معاملے میں در خواستیں قبول کرنا شروع کیں اور 28 اکتوبر 2016 کو ان کی سماعت کے لیے ایک لارجر بینچ تشکیل دیا گیا۔

جے آئی ٹی کی تشکیل اور وزیرِ اعظم کی نااہلی

سپریم کورٹ نے 20 اپریل 2017 کو پاناما گیٹ کیس کا منقسم فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے میں بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے نواز شریف کو نااہل کرنے کی رائے دی جب کہ اکثریتی فیصلے میں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ پر الزامات کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم جاری کیا۔

سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی نے 10 جولائی 2017 کو اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔ 28 جولائی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز شریف کو قابلِ وصول تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر وزارتِ عظمیٰ کے لیے نااہل قرار دیا۔

اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ایون فیلڈ جائیدادوں، جدہ میں قائم العزیزیہ کمپنی اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے معاملے میں احتساب عدالت میں کارروائی کا فیصلہ جاری کر دیا۔

آٹھ ستمبر 2017 کو نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف تین ریفرنسز العزیزیہ ریفرنس، فلیگ شپ ریفرنس اور ایون فیلڈ ریفرنس دائر کیے گئے تھے۔

ایون فیلڈ کیس میں سزا

احتساب عدالت نے چھ جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو سات سال اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو لندن میں موجود ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کا مالک ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی تھی۔

ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے وقت نواز شریف ملک میں موجود نہیں تھے۔ وہ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے اگست 2018 میں لندن روانہ ہوئے تھے۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد 13 جولائی 2018 کو سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ پاکستان واپس آئے تو انہیں گرفتار کر کے جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

سولہ جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا پر نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سزا کی معطلی اور ضمانت کے لیے اپیل دائر کی تھی۔

درخواستِ ضمانت کی سماعت

نواز شریف کی درخواست ضمانت پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی تھی۔

ہائی کورٹ کے اس دو رکنی بینچ نے فوری ضمانت کی درخواست مسترد کر کے اس پر آئندہ سماعت جولائی 2018 کے آخری ہفتے کے لیے ملتوی کر دی تھی۔

پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات 25 جولائی کو ہوئے تھے اور نواز شریف کو انتخابات کے بعد ضمانت ملی تھی۔

'ایسے مقدمات تو مارشل لا کے زمانے میں بنتے تھے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:38 0:00

واضح رہے کہ اس درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے مختلف ججز کرتے رہے اور جب اس اپیل کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا تو اس وقت جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اس کی سماعت کی تھی۔

بعد ازاں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن کیانی پر مشتمل بینچ سماعت کرتا رہا اور جب نواز شریف کو ضمانت دی گئی تو اس وقت اس کیس کی سماعت جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کر رہے تھے۔

گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے اپنے حلف نامے میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے متعلق جو دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک جج کو فون کر کے حکم دیا کہ نواز شریف کو انتخابات سے قبل ضمانت نہ دی جائے۔ تو اس وقت سابق وزیرِ اعظم کی درخواستِ ضمانت پر سماعت جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کر رہے تھے۔

XS
SM
MD
LG