رسائی کے لنکس

”پاکستان کو کیری لوگر بل کے تحت امداد جلد فراہم کر دی جائے گی “


”پاکستان کو کیری لوگر بل کے تحت امداد جلد فراہم کر دی جائے گی “
”پاکستان کو کیری لوگر بل کے تحت امداد جلد فراہم کر دی جائے گی “

افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک نے کہا ہے کہ اب جب کہ امریکی شہریوں کو پاکستانی ویزے کے حصول سمیت دیگر دشواریاں دور ہوگئی ہیں تو کیری لوگر بل کے تحت پاکستان کو دی جانے والی امداد بھی جلد فراہم کردی جائے گی۔

جمعرات کو اسلام آباد میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کے دوران ہالبروک نے کہا کہ ان کا ملک پاکستانی حکومت اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ قریبی تعاون کا خواہشمند ہے تاکہ دہشت گردی جیسے مشترکہ دشمن کو شکست دی جا سکے۔

ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس اُمید کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے مابین سٹریٹیجک ڈائیلاگ کا موجودہ ششماہی کے دوران جلد ازجلد انعقاد ہو جائے گا تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرکے اعتماد سازی کو فروغ دیا جا سکے۔

مزید برآں وزیراعظم نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ امریکہ افغان صوبے ہلمند میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری کارروائی کے پاکستان پر ہونے والے ممکنہ اثرات کو بھی ملحوظ خاطر رکھے گا اور بین الاقوامی افواج اس ضمن میں پاکستانی سکیورٹی فورسز سے قریبی تعاون اور رابطے کو مزید بڑھائیں گی۔

بیان کے مطابق پاک بھارت تعلقات اور دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان ہونے والی آئندہ بات چیت کے حوالے سے پاکستانی وزیراعظم نے کہا کہ ان کی حکومت جامع مذاکرات کی بحالی کے لیے مخلصانہ کوششیں کررہی ہے تاہم اس بارے میں بھارت کی طرف سے ملنے والے اشارے ان کے بقول حوصلہ افزا نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے اعلیٰ امریکہ عہدیداروں اورکانگریس کے ارکان نے پاکستان کا دورہ کیا ہے جن میں امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین جان کیری ، نائب وزیردفاع مشیل فلورنوئے(Micheal Fluorney)اور سابق نائب امریکی وزیرخارجہ رچرڈ آرمٹیج بھی شامل ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکی کے خصوصی ایلچی رچرڈ ہالبروک کی جمعرات کو پاکستانی حکام سے ملاقاتوں اور رواں ہفتے اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے دورہ پاکستان کی اہمیت کے بارے میں بین الاقوامی اُمور ماہر اور تجزیہ نگار رسول بخش رئیس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان ملاقاتوں میں ہلمند میں جاری آپریشن اور افغانستان میں طالبان کے ساتھ بات چیت ایسے مسائل ہیں جن پر دونوں ممالک کے قریبی روابط ناگزیر ہیں اور امریکی حکام کے حالیہ دورے انھی قریبی تعلقات کی کڑی ہیں۔

حکمران جماعت پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی پلوشہ بہرام جو خارجہ اُمور کی پارلیمانی کمیٹی کی رکن بھی ہیں،اُن کا اس بارے میں کہنا ہے کہ امریکی حکام کے دورو ں کا مقصد کثیر الجہتی ہوسکتا ہے اور اُن کے بقول عدلیہ اور حکومت کے درمیان حالیہ کشیدگی بھی ان دوروں کا مقصد ہوسکتی ہے کیوں کہ پلوشہ بہرام کا ماننا ہے کہ امریکہ کو اس بات پر تشویش ہوسکتی ہے کہ ان معاملا ت کی وجہ سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں توجہ کم نہ ہوجائے۔

پلوشہ بہرام کا کہنا ہے کہ پاکستان کا دورہ کرنے والے اعلیٰ امریکی عہدیداروں کو چاہیئے کہ وہ صرف مخصو ص افراد کی بجائے اپنی ملاقاتوں کا دائرہ کار بڑھائیں تاکہ دوطرفہ رابطوں کو زیادہ بامعنی بنایا جاسکے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اُٹھنے والے اخراجات کی مد میں پاکستان کوامریکہ کی طرف سے اتحادی امداد ی فنڈ کی مد میں رقم کی فراہمی میں تاخیر پر پلوشہ بہرام کا کہنا ہے کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

پاکستان اوربھارت کے تعلقات کے بار ے میں امریکی کردار کے بارے میں تجزیہ نگار رسول بخش رئیس کا کہنا ہے کہ پاک بھارت بہتر تعلقات میں امریکہ کی بھی دلچسپی ہے اور اُن کے بقول ماضی بھی امریکہ نے دونوں ممالک کے درمیان کشید گی کم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ رسول بخش رئیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے وہ شورش زدہ علاقے جہاں سکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف کامیاب آپریشن کر کے حکومت کی عمل داری بحال کردی ہے وہاں بحالی کے کاموں کے لیے امریکہ پاکستان کی امداد کررہا ہے اور اُن کے بقول امریکہ کو بھی اس کی اہمیت کا ادارک ہے۔

XS
SM
MD
LG