رسائی کے لنکس

جنوبی غزہ میں شدید لڑائی، حماس کی اسرائیل کے خلاف نئی حکمتِ عملی کیا ہے؟


اسرائیل اور حماس کے درمیان جنوبی غزہ کے مرکزی شہر خان یونس میں گھمسان کی لڑائی جاری ہے اور اسرائیلی فوج اسے اب تک کی سب سے شدید لڑائی قرار دے رہی ہے۔

امریکہ نے ایک بار پھر اسرائیل پر فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں کو کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالاہے۔ عالمی امدادی تنظیموں نے کہا ہے کہ اسرائیل نےخان یونس سے چھ لاکھ لوگوں کے انخلا کے احکامات دیے ہیں لیکن لوگوں کے لیے کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں بچی۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق حماس کے مسلح ونگ القسام بریگیڈز نے کہا ہےکہ اس کے جنگجو اسرائیلیوں کے ساتھ پرتشدد جھڑپوں میں مصروف ہیں۔

اسرائیل کی جنوبی ملٹری کمانڈ کے کمانڈر میجر جنرل یارون فنکل مین نے کہا کہ "ہم زمینی آپریشن کے آغاز کے بعد سے مارے جانے والے دہشت گردوں، فائر فائٹ کی تعداد اور زمین اور فضا سے فائر پاور کے استعمال کے لحاظ سے انتہائی شدید ترین دن میں ہیں - "

ایک بیان میں انہوں نے کہا "ہم کارروائیاں جاری رکھنے اور اپنی کامیابیوں کو محفوظ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔"

یارون فنکل کے مطابق اسرائیلی فضائیہ کے طیاروں نے دو راؤنڈ حملے کیے ہیں جس میں تمام جنگی دستوں کے درجنوں طیارے شامل ہیں جب کہ پیادہ فوج نے سرنگوں، آپریشنل شافٹوں اور ٹینک شکن میزائل لانچ پوزیشنوں پر حملوں کے دوران سینکڑوں گولہ بارود کا استعمال کیا ہے۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے غزہ کے شمال میں جبالیہ اور شجاعیہ کے علاقوں میں بھی شدید لڑائیوں کی اطلاع دی ہے جب کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس نے اسرائیلی فوج سے لڑائی میں نئی حکمتِ عملی اپنائی ہے۔


حماس کی تبدیل ہوتی حکمتِ عملی

جنگوں پر تحقیق سے متعلق امریکی تھنک ٹینک 'انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار' کے مطابق عارضی جنگ بندی کے بعد حماس اور اس کے اتحادی فلسطینی عسکریت پسندوں نے غزہ کی پٹی میں گزشتہ ماہ کی لڑائی کے دوران سیکھے گئے سبق کی بنیاد پر اپنے ہتھیاروں کو اپ گریڈ کیا اور اپنی حکمتِ عملی تبدیلی کی ہے۔

حماس کی لڑائی کے طریقے میں ایک قابل ذکر تبدیلی دھماکہ خیز "پینیٹریٹرز" (ای ایف پی ) کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ یہ دھماکہ خیز مواد بکتر بند میں گھسنے کے لیے بنایا گیا ہے اور بہت دور سے فائر کرنے کے بعد بھی یہ کام کر سکتا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ کے مطابق یہ ہتھیار، جو اکتوبر اور نومبر میں صرف دو بار استعمال کیے گئے تھے، یکم دسمبر سے اب تک پانچ بار استعمال کیا جاچکا ہے۔

جنیوا یونیورسٹی کے گلوبل اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے ایک سیکیورٹی ماہر الیگزینڈر واٹراورز نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ وقت تین قسم کے ای ایف پی استعمال ہوتے ہیں اور سب سے عام تین مختلف سمتوں میں نقصان پہنچانے والے ای ایف پی ہیں جو عام طور پر 10-40 میٹر کے دائرے میں مہلک اثرات مرتب کرتا ہے۔"

یہ واضح نہیں ہے کہ حماس کون سے ای ایف پی استعمال کر رہا ہے۔ تاہم امریکی تھنک ٹینک کے مطابق امکان ہے کہ غزہ میں جاری لڑائی کے دوران ٹینک شکن ای ایف پی استعمال کیے جا رہے ہیں۔

بین الاقوامی ٹیم فار دی اسٹڈی آف سیکیورٹی ویرونا کے ساتھ وابستہ مشرق وسطیٰ کے جیو پولیٹکس کے ماہر عمری برنر کا کہنا ہے کہ پرانے ہتھیار 2000 کی دہائی کے آخر میں تیار کیے گئے اسرائیل کے 'ٹرافی' دفاعی نظام کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔لیکن ای ایف پی کی زیادہ جدید اقسام، جیسا کہ حماس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ استعمال کر رہی ہے، "ہائپر سونک" رفتار سے لانچ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ای ایف پی اسرائیل کے ٹرافی یا اسی طرح کے نظاموں کے ذریعے سے رکے بغیر بکتر بند گاڑیوں کو چھیدنے کے قابل ہیں۔"

اس بارے میں سوالات کے جواب ابھی سامنے نہیں آئے کہ حماس نے اسرائیلی نظام میں گھسنے کے لیے تیار کیے گئے جدید ہتھیاروں تک کیسے رسائی حاصل کی۔

انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار کے مطابق حماس جو ای ایف پی استعمال کرتی ہے وہ غزہ کی پٹی میں ہی بنائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ حماس اسرائیلی فوج کو نشانہ بنانے کے لیے حملہ آور ڈرونز بھی استعمال کر رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ حماس کی عسکری اہلیت کی تکنیکی صلاحیت میں اضافے کا اظہار ہے۔

برطانیہ کی پورٹس ماؤتھ یونیورسٹی میں اسرائیل-فلسطین تنازع کے عسکری پہلوؤں کی ماہر ویرونیکا پونسجاکووا کہتی ہیں کہ حماس کئی دہائیوں سے ڈرون تیار کر رہی ہے اور پہلے سے ان کا استعمال بھی کر رہی ہے، لیکن عسکریت پسند تنظیم نے کبھی بھی اسے مؤثر طریقے سے استعمال نہیں کیا ۔

لڑائی کی حکمتِ عملی میں ارتقا

بہتر ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ، حماس جنوبی غزہ میں اسرائیل کے خلاف کارروائی کا ایک نیا منصوبہ بھی اپنا تی نظر آتی ہے۔

انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار نے لکھا، ’’حماس اور دیگر فلسطینی ملیشیا تاخیری کارروائیوں سے جان بوجھ کر دفاع کرنے کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔

انسٹی ٹیوٹ کے مطابق غزہ کے شمال میں کارروائیوں کا مقصد اسرائیلی پیش رفت کو سست کرنا ہے۔ اس کا مقصد حماس کو اپنے رہنماؤں اور فوجی سامان کو شمالی غزہ کی پٹی سے جنوبی حصے میں منتقل کرنے کے لیے وقت فراہم کرنا لگتا ہے۔'

امریکی تھنک ٹینک کے مطابق " حماس کی حکمتِ عملی میں تبدیلی سے پتا چلتا ہے کہ وہ اسرائیل کی زمینی کارروائی کے خلاف دفاع کے لیے فیصلہ کن طور پر پرعزم ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔"

پونیسکجاکووا نے کہا کہ اگر حماس شمالی غزہ میں لڑائی کے دوران اپنی کارروائیوں کو جنوب میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو اب "بھاگ کر جانے کی کوئی دوسری جگہ نہیں ہے۔

اسرائیل اور حماس میں جنگ سات اکتوبر کو اس وقت شروع ہوئی تھی جب حماس کے جنگجوؤںے جنوبی اسرائیل پر حملے میں حکام کے مطابق 1200 لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا اور 240 کے لگ بھگ لوگوں کو یرغمال بنا کر غزہ لے آئے تھے۔

اس کے بعد کی اسرائیلی کارروائی میں اب تک غزہ کی حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت کے مطابق 16000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات' اے ایف پی' اور 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG