رسائی کے لنکس

بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی پر غور، کیا پاکستانی معیشت کو فائدہ پہنچے گا؟


  • بھارت کے ساتھ تجارتی روابط کی بحالی پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں: وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار
  • بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی سے پاکستان کی معیشت کو فائدہ ہو گا: تاجر کمیونٹی
  • تعلقات برابری کی سطح پر بحال ہونے چاہئیں: عبدالعلیم صدر اوورسیز چیمبر آف کامرس

پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کی جانب سے بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بحال کرنے پر غور کا معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ تاجر کمیونٹی نے اس کا خیر مقدم کیا ہے جب کہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ تجارتی تعلقات کی بحالی برابری کی سطح پر ہونی چاہیے۔

پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ہفتے کو لندن میں نیوز کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ حکومت ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تجارت کی بحالی پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔

وزیرِ خارجہ کے اس حالیہ بیان کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ کیا پاکستان کو بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنی چاہیے اور اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

پاکستان نے پانچ اگست 2019 کو بھارت کی جانب سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے یک طرفہ اقدام کے ردِعمل میں دو طرفہ تجارت کو معطل کر دیا تھا۔

پاکستان کا کاروباری طبقہ بھارت سے تجارت کی بحالی کے امکانات کو خوش آئند قرار دے رہا ہے۔ اُن کے بقول دوطرفہ تجارت دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔

'تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے'

اورسیز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (او سی سی آئی) کے صدر عبدالعلیم کہتے ہیں کہ اگر حکومت بھارت سے تجارت کی بحالی کا سوچ رہی ہے تو یہ خوش آئند بات ہے لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ خواہش کا اظہار ایک چیز ہے جب کہ عملی طور پر اس پر پیش رفت کرنا دوسری بات ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ دیکھنا ہو گا کہ بھارت اس پر کیا ردِعمل ظاہر کرتا ہے۔ ان کے بقول یہ اقدام دونوں ملکوں کے لیے اسی صورت بہتر ہو گا جب تجارت کو آزادانہ اور شفاف انداز میں ہونے دیا جائے گا۔

سارک ویمن چیمبر آف کامرس کی چیئر پرسن حنا منصب خان کہتی ہیں کہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کی حکومت بھارت کے ساتھ چار سال سے معطل تجارت کی بحالی پر غور کر رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ہمسایہ ممالک کے حوالے سے بھارت کے رویے میں بھی تبدیلی آئی ہے اور رواں ماہ نیپال میں سات سال کے بعد سارک کا اجلاس ہوا ہے جو کہ بھارت کی عدم شمولیت کے باعث نہیں ہو پا رہا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ سیاسی مسائل کی وجہ سے خطے کے ممالک کے درمیان تجارت اور روابط منقطع ہوئے ہیں جب کہ اب آگے بڑھنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔

وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ ’دبئی اور سنگاپور کے راستے بھارت سے تجارت ہو رہی ہے جو مہنگی پڑتی ہے اس لیے کاروباری افراد چاہتے ہیں کہ بھارت سے تجارت بحال ہو۔‘

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جس نے پاکستان کو بھارت سے تجارت کی بحالی کے لیے سوچنے پر مجبور کیا اور کیا جنوبی ایشیا کے دو روایتی حریف ممالک کے درمیان تجارت کی بحالی ممکن ہو سکے گی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نئی حکومت کا قیام، خطے کے بدلتے حالات اور عالمی طاقتوں کے اصرار کی وجہ سے پاکستان اور بھارت تجارت کی بحالی پر غور کر رہے ہیں۔

عبدالعلیم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی حکومت کی تبدیلی ہوئی ہے اور حکومت کی یہ سوچ ہو گی کہ وہ عالمی طور پر خود کو تنہا نہ کرے۔

اُن کے بقول تجارتی روابط کی بحالی کی سوچ مثبت پیش رفت ہے جس کے پیچھے عالمی دباؤ بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ دونوں ملکوں کے تعلقات گزشتہ کئی برسوں سے سرد مہری کا شکار ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ان حالات میں کسی نہ کسی کو تو اقدام لینا تھا اور پاکستان اور بھارت کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے سے دوستانہ تعلقات نہ رکھیں لیکن بہت زیادہ دور بھی نہیں جانا چاہیے۔

سارک ویمن چیمبر آف کامرس کی حنا منصب خان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت اور دوطرفہ تعلقات کی بحالی کا بہت حد تک دار و مدار بھارت کے انتخابات پر ہو گا جو کہ رواں سال ہونے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کے عوام بھی نریندر مودی کی یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ بھارت دنیا سے تجارت کی بات کرتا ہے لیکن ہمسایہ ملک پاکستان سے نہیں کرتا۔

وہ کہتی ہیں کہ دونوں ملکوں کی عوام چاہتی ہے کہ رابطے ہوں اور نفرت اور دوریوں کو ختم کیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ سال کے آخر میں بھارت کے دورے پر تھیں تو وہاں کے سیاسی و تجارتی حلقوں میں یہ خیال پایا جاتا تھا کہ اگر پاکستان کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوتی ہے تو دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔

یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ بھارت ایک بڑی برآمدی منڈی ہے لہذا تجارت کی بحالی سے پاکستان میں صنعت اور مقامی کاروبار کو نقصان ہو سکتا ہے۔

عبدالعلیم کہتے ہیں کہ دوطرفہ تجارت کو اس انداز میں لے کر چلنا چاہیے کہ دونوں ملکوں کے فائدے میں ہو۔ انہوں نے کہا کہ کچھ چیزین بھارت سے سستی آ سکتی ہیں اور کچھ پاکستان کم قیمت میں ہمسایہ ملکوں سے برآمد کر سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں بھارت پاکستان سے تجارت میں نان ٹیرف رکاوٹوں کے ذریعے مشکلات پیدا کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سے بعض اشیا کی برآمد پر بھارت ناقابلِ عمل حد تک مشکلات پیدا کرتا رہا ہے اور دیکھنا ہو گا کہ اب نئی دہلی کا پاکستان کے ساتھ تجارت کے حوالے سے کیا رویہ ہوتا ہے۔

عبدالعلیم کا کہنا ہے کہ تجارت کی بحالی فوری طور پر ممکن نہیں ہو سکے گی بلکہ اس کے لیے دونوں ملکوں کو آہستہ آہستہ آگے بڑھنا ہو گا اور کوشش کرنا ہو گی کہ یہ دونوں کے فائدے میں ہو۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی معیشت کی خراب صورتِ حال کی وجہ سے مقامی افراد کی قوتِ خرید کم ہوئی ہے اس صورتِ حال میں بھارت کی منڈی کھلنے سے عام آدمی کو فائدہ ہو گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG