رسائی کے لنکس

یوکرین تنازع: روس پر کس ملک نے کیا پابندیاں عائد کی ہیں؟


یوکرین کے دو علاقوں کی آزادانہ حیثیت تسلیم کرنے پر امریکہ اور یورپی یونین کے علاوہ دیگر ممالک نے بھی روس کےخلاف اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
یوکرین کے دو علاقوں کی آزادانہ حیثیت تسلیم کرنے پر امریکہ اور یورپی یونین کے علاوہ دیگر ممالک نے بھی روس کےخلاف اقدامات کا اعلان کیا ہے۔

روس کی جانب سے مشرقی یوکرین کے علیحدگی پسند علاقوں میں فوج داخل کرنے کے احکامات کے بعد امریکہ اور یورپی یونین سمیت دیگر ممالک نے روس پر پابندیاں عائد کردی ہیں۔ مغربی ممالک نے کسی جارحیت کی صورت میں ماسکو کو مزید سخت اقدامات کرنے کا انتباہ بھی کیا ہے۔

امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور جاپان نے اپنی پابندیوں میں بینکوں اور روس کے امیر ترین افراد کو ہدف بنانے کا اعلان کیا ہے۔ جب کہ جرمنی نے روس کے ساتھ ایک بڑی گیس پائپ لائن منصوبے پر کام روک دیا ہے۔

یوکرین اور روس کے درمیان جاری حالیہ تنازع کو گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران یورپ میں سلامتی کا سنگین ترین بحران قرار دیا جارہا ہے۔

روس یوکرین کو تاریخی اعتبار سے اپنی سرزمین کا حصہ تصور کرتا ہے۔ یوکرین کے مغربی ممالک کے اتحاد نیٹو سے بڑھتے ہوئے تعلقات کے رد عمل میں صدر ولادیمیر پوٹن نے، گزشتہ برس امریکہ کے تخمینے کے مطابق، یوکرین کی سرحد پر ڈیڑھ لاکھ اہل کار تعینات کردیے تھے۔

روس نے منگل کو ان اہل کاروں کو یوکرین کے علاقوں ڈونٹسک اور لوہانسک میں داخل ہونے کے احکامات جاری کیے اور اس کی وجہ 'قیامِ امن' بتایا ہے۔امریکہ نے اس جواز کو 'احمقانہ' قرار دیتے ہوئے اسے یوکرین پر حملے کا آغاز قرار دیا ہے۔

امریکہ کی روس پر پابندیاں

ماسکو کے حالیہ اقدامات پر امریکہ نے روس کے امیر ترین افراد اور دو سرکاری بینکوں کو ہدف بنایا ہے۔

امریکہ کی پابندیاں روس کے 'ویب بینک' اور روسی فوج کے 'پرومزوائز بینک' پر عائد ہوں گی جو روس کے دفاعی سودے کرتا ہے۔امریکہ نے ان روسی بینکوں کو اپنے بینکنگ سسٹم سے خارج کردیا ہے، ان پر امریکیوں سے تجارت کرنے پر پابندی عائد کردی ہے اور ان کے اثاثے بھی منجمد کردیے ہیں۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ یوکرین پر روس کی جارحیت کی صورت میں وہ روس کے سب سے بڑے دو کمرشل بینکوں 'سبر بینک' اور 'وی ٹی بی' پر پابندی عائد کردیں گے۔

سخت ترین اقدام

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق روس کے خلاف سب سے زیادہ سخت اقدام جرمنی نے کیا ہے۔

جرمنی نے منگل کو روس کی سرکاری کمپنی 'گیزپروم' کے ساتھ 11 ارب ڈالر کے 'نارڈ اسٹریم ٹو' کے گیس پائپ لائن منصوبے پر کام روک دیا ہے۔ جرمنی کے اس فیصلے کے بعد یورپ میں توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

یہ پائپ لائن یورپی صارفین کو توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے دباؤ سے نکالنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اسے فعال کرنے کے لیے جرمنی کی توثیق درکار تھی۔ البتہ امریکہ سمیت اس منصوبے کے ناقدین کا مؤقف تھا کہ اس منصوبے کے نتیجے میں توانائی کے لیے روس پر یورپ کا انحصار بڑھ جائے گا۔

جرمنی کے وزیر برائے معاشی امور رابرٹ ہیبک نے خبردار کیا ہے کہ کچھ مدت کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے امکان ہے۔

روس کی سلامتی کونسل کے سربراہ اور سابق صدر دمتری مدودوف نے عندیہ دیا تھا کہ گیس کی قیمتیں دگنی ہوسکتی ہیں۔

انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’نئی دنیا میں خوش آمدید جہاں یورپی باشندوں کو جلد ہی فی ہزار کیوبک میٹر کی قیمت دو ہزار یورو ادا کرنے پڑیں گے۔

روس نے جرمنی کے اس فیصلے کے بعد کہا ہے کہ امید ہے پائپ لائن میں یہ تعطل عارضی ہوگا۔ صدر پوٹن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ روس کا مقصد دنیا کو بلا تعطل گیس کی فراہمی ہے۔

بحیرہ بالٹک کے اندر سے گزرنے والی یہ 1230 کلو میٹر طویل قدرتی گیس پائپ لائن روس سے جرمنی کے بالٹک ساحل تک جاتی ہے۔

'نارڈ اسٹریم ٹو' پائپ لائن میں گیس کی ترسیل کا کام مکمل ہو چکا ہے لیکن اس کے لیے جرمنی میں یوٹیلیٹی ریگولیٹرز اور یورپی کمیشن کی منظوری کا انتظار ہے۔

آسٹریلیا کا ردّعمل

یوکرین کے دو علاقوں کی آزادانہ حیثیت تسلیم کرنے پر آسٹریلیا نے بھی روس پر پابندیاں عائد کی ہیں۔

برطانوی اخبار 'گارڈین' کے مطابق آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن نے کہا ہے کہ پابندیوں کے پہلے مرحلے میں آٹھ روسی سیکیورٹی حکام، تیل اور گیس کے سیکٹر کو ہدف بنایا جائے گا۔

ابتدائی طور پر روس کے آٹھ سیکیورٹی حکام پر سفری اور مالیاتی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ روس کے سرکاری بینک ’والکسائگنر بٹریب‘ (ویب) بھی ان مالیاتی اداروں میں شامل ہے جن پر آسٹریلیا کی پابندیاں عائد کی ہیں تاہم آسٹریلوی حکومت نے اپنی پابندیوں کی مزید تفصیلات جاری نہیں کیں۔

روس یوکرین کشیدگی: بائیڈن کے ایگزیکٹو آرڈرمیں کیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:18 0:00

آسٹریلوی وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ "ہم بین الاقوامی برادری کی ان کوششوں میں شریک ہورہے ہیں جو اپنے ہمسائیوں پر حملہ آور ہونے والی مطلق العنان حکومت سے مالی فوائد حاصل کرنے والوں کو ہدف بنانے کے لیے ہیں۔"

بینک اور ارکانِ پارلیمنٹ پر پابندیاں

یورپی یونین نے مشرقی یوکرین کے علیحدگی پسندوں کو مالی معاونت کے لیے استعمال ہونے والے بینکوں پر پابندی عائد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

اس کے علاوہ روسی حکومت کو قرضوں کے حصول میں رکاوٹ کے لیے بھی بینکاری کے شعبے پر پابندیاں زیر غور ہیں۔

یورپی بینکوں میں خاص طور پر آسٹریلیا، اٹلی اور فرانس کے بینک روس کے لیے سب سے زیادہ قابل رسائی ہیں۔

اس کے علاوہ یوریی یونین میں شامل وزرائے خارجہ نے یوکرین کے علاقوں سے متعلق فیصلہ سازی اور کارروائیوں میں ملوث 27 اشخاص اور اداروں پر پابندیاں عائد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

یورپی یونین کی پابندیوں کے پیکج میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ یوکرین کے علیحدگی اختیار کرنے والے علاقوں کو آزاد تسلیم کرنے کے حق میں ووٹ دینے والے روسی پالیمنٹ کے ایوانِ زیریں کے ارکان پربھی پابندیاں عائد کی جائیں۔

برطانیہ نے روس کے صدر پوٹن کے قریبی تصور ہونے والے تین ارب پتی روسی شہریوں اور پانچ روسی بینکوں پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔

جاپان کے اقدامات

روسی اقدامات پر جاپان نے بعض روسی شخصیات کے اثاثے منجمد کردیے ہیں اور ان پر سفری پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔ اس کے علاوہ جاپان میں روس کے بانڈز کے اجرا پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔

جاپانی وزیراعظم فومیو کشیدا نے بدھ کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ روس پر پابندیوں کی جزئیات پر کام کررہے ہیں اور چند روز میں مزید اقدامات کا اعلان کیا جائے گا۔

روس پر پابندیوں کا اثر کیا ہوگا؟

خبر رساں دارے 'رائٹرز' کے مطابق روس کے بینکوں پر عائد ہونے والی پابندی کے اثرات کی نوعیت تاحال محدود ہے کیوں کہ ابتدائی طور پر چھوٹے بینک پابندی کے دائرے میں آئے ہیں۔

ابھی تک عائد کی گئی پابندیاں اتنی جامع نہیں ہیں جو 2014 میں کرائیمیا پر روس کے حملے کے بعد عائد کی گئی تھیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس نے کرائیمیا پر حملے کے وقت عائد ہونے والی پابندیوں سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ اس نے ڈالر پر انحصار کم کیا اور بڑے پیمانے پر اپنے اثاثے یورو اور سونے میں منتقل کیے ہیں۔

روس کے بڑی معاشی اشاریے بھی مستحکم ہیں۔ روس کے زرِمبادلہ کے ذخائر 635 ارب ڈالر ہیں۔ اس کے پاس 100 ارب ڈالر کے تیل کے ذخائر ہیں اور گزشتہ برس مجموعی پیدوار کے مقابلے میں قرضوں کی شرح کم ترین سطح پر 18 فی صد رہی ہے۔

اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ آٹھ برس قبل کے مقابلے میں آج روس ان محدود نوعیت کی پابندیوں کا زیادہ بہتر انداز میں مقابلہ کرسکتا ہے۔

امریکہ کے تھنک ٹینک 'رینڈ کارپوریشن' سے وابستہ سیاسی تجزیہ کار سیمیول چیرپ کا کہنا ہے کہ ابھی تک جن پابندیوں کا اعلان ہوا ہے وہ غیر معمولی نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان پابندیوں سے آگے کہاں تک جایا جا سکتا ہے۔

ان کے بقول روس کی غیر معمولی فوجی کارروائی کے امکانات واضح ہیں اور ایسی صورتِ حال میں مزید سخت اور کثیر الجہت اقدامات کرنا ہوں گے۔

مزید سخت اقدامات کیا ہوسکتے ہیں؟

یورپی یونین نے عندیہ دیا ہے کہ وہ ایسے اقدمات کے لیے تیار ہیں جن کے نتیجے میں روس کی معیشت کو بھاری نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں یورپی یونین نے روس کے ساتھ توانائی اور تجارتی شعبے میں تعلقات منقطع کرنے کا انتباہ بھی کیا ہے۔

یورپی حکام ابھی تک روس پر عائد کردہ پابندیوں کو پہلا قدم قرار دے رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق روس کے بینکوں کو بین الاقوامی لین دین سے روکنے کی صورت میں روس کو بڑا دھچکہ لگ سکتا ہے۔

علاقائی اور مغربی بینکوں کو خدشہ ہے کہ روس پر گلوبل پیمنٹ سسٹم 'سوئفٹ' استعمال کرنے پر پابندی عائد ہوسکتی ہے۔سوئفٹ نظام تک رسائی روکنے سے روس کا بین الاقوامی لین دین رک جائے گا جس میں تیل اور گیس کی تجارت سے حاصل ہونے والا منافع بھی شامل ہے جو کہ روس کی مجموعی قومی آمدن کا 40 فی صد بنتا ہے۔

اس سے قبل 2014 میں کرائمیا پر حملے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روس کو 'سوئفٹ' سے نکالنے پر غور کیا تھا۔ لیکن روس نے اس اقدام کو اعلانِ جنگ کے مترادف قرار دیا تھا۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق برآمدات سے متعلق امریکہ کے اقدامات کی صورت میں روس کو اُن آلات اور مشینری کی پیداوار میں شدید مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے جن میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں جنگی اور مسافر طیارے، اسمارٹ فونز اور برقی آلات میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئرز شامل ہیں۔

اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز'اور 'ایسوسی ایٹڈپریس' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG