رسائی کے لنکس

عوام میں پائی جانے والی مایوسی کا نوٹس لیا جائے: ایچ آر سی پی


کمیشن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ لوگ تمام ریاستی اداروں سے شدید مایوس ہیں جو کہ ایچ آر سی پی کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ (فائل فوٹو)
کمیشن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ لوگ تمام ریاستی اداروں سے شدید مایوس ہیں جو کہ ایچ آر سی پی کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ (فائل فوٹو)

ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے قائم انکوائری کمیشن کی کئی برس قبل مکمل ہونے والی رپورٹ کو ابھی تک منظرِ عام پر نہیں لایا گیا۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے ایک غیر جانبدار ادارے "ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان" (ایچ آر سی پی) نے کہا ہے کہ ملک میں ناقص نظم و نسق اور عوام کے حقوق سے لاتعلقی نے لوگوں میں شدید غم و غصے اور احساس محرومی کو جنم دیا ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ایچ آر سی پی کے انتظامی کونسل کے اتوار کو ہونے والے اجلاس کے اختتام پر کمیشن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ لوگ تمام ریاستی اداروں سے شدید مایوس ہیں جو کہ ایچ آر سی پی کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے، "ہمارے خیال میں اس صورت حال سے ہر فرد کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ نظم و نسق میں شدید خامیاں اور سرکاری مالیاتی وسائل کے حوالے سے ناقص ترجیحات کو بہتر کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔‘‘

انسانی حقوق کمیشن نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ ملک میں پھیلے اس انتشار کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جن کے اقدامات سے سویلین حکمرانی کو نقصان پہنچا اور غیر جمہوری قوتوں کے کردار کو اور زیادہ وسعت ملی۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کی عدالت عظمٰی سے نا اہلی کے چند ہی روز بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیرِ اعظم منتخب کر لیا گیا تھا۔ موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ فعال ہے اور تمام مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔

تاہم حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ موجودہ حکومت مکمل طور پر فعال نہیں ہے اس لیے نئے انتخابات کی ضرورت ہے۔

لیکن نہ صرف حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی نئے انتخابات کے اس مطالبے کی مخالفت کی گئی ہے۔

ایچ آر سی پی نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ اس صورتِ حال سے پاکستان کے کئی مسائل سے توجہ ہٹ رہی ہے جو دن بدن زیادہ سنگین صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔

’’جبری گمشدگیوں کا رجحان عام ہو گیا ہے۔ عدالتی اور انکوائری کمیشن کی کوششیں ناقص اور غیر موثر ثابت ہوئی ہیں۔‘‘

ایچ آر سی پی کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس مسئلے پر ہائی کورٹس میں خصوصی بینچ قائم کیے جائیں تاکہ یہ ثابت ہو کہ جبری گمشدگی کے مسئلے کو اتنی ہی فوری اور سنجیدہ توجہ دی گئی ہے، جتنی اسے دی جانی چاہیے تھی۔

ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے قائم انکوائری کمیشن کی کئی برس قبل مکمل ہونے والی رپورٹ کو ابھی تک منظرِ عام پر نہیں لایا گیا۔

کمیشن نے رپورٹ کو فوری طور پر جاری کرنے اور اُس کی سفارشات پر عمل درآمد کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے رکن رانا افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ نواز شریف کی برطرفی کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

’’پاکستان میں تھوڑا سا سیاسی مسئلہ ہوا۔۔۔ ایک چلتی ہوئی حکومت کو روکا گیا۔۔۔۔ جہاں تک حکومت کی کارکردگی ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہماری حکومت پہلے سے اگر بہتر نہیں تو اسی طرح سے کام کر رہی ہے۔‘‘

رانا افضل کا کہنا تھا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ کاروباری برادری کے خدشات کو بھی دور کیا جائے۔

’’نواز شریف کے جانے سے جو اسٹاک ایکسچینج گری ہے اور جو ہمارے کاروباری حضرات تھوڑا عدم تحفظ محسوس کر رہے ہیں وہ آنے والے دنوں میں اللہ کرے کہ بہتر ہو جائے۔ یہ ایک معاملہ ہےجس پر حکومت محنت کر رہی ہے۔‘‘

ایچ آر سی پی نے مزید کہا ہے کہ اپنی شفافیت ثابت کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندوں، خصوصاً اظہارِ رائے کی آزادی کے نگران خصوصی رپورٹیئر اور ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگی کو دورہ پاکستان کی دعوت دے۔

نام لیے بغیر بظاہر شریف خاندان کے خلاف احتساب کا حوالہ دیتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بعض اداروں اور افراد کو جواب دہی سے مکمل استثنا حاصل ہے جب کہ بعض مخصوص افراد کو ہر قدم پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایچ آر سی پی کا مطالبہ ہے کہ سب کا بلا امتیاز احتساب ہو اور اس حوالے سے تمام قانونی تقاضوں کی پیروی کی جائے۔‘‘

کمیشن نے مزید کہا ہے کہ پاکستان کو درپیش سنگین معاشی بحران تقاضا کرتا ہے کہ انتظامیہ، پارلیمان، عدلیہ اور فوج سمیت تمام اداروں کو ’’نمود و نمائش‘‘ ترک کرنی چاہیے اور کم ازکم کچھ برسوں کے لیے بہت زیادہ کفایت شعاری اور اخراجات میں نمایاں کمی کرنی چاہیے۔

XS
SM
MD
LG